Friday, October 30, 2009

پاکستان

جنوبی وزیرستان آپریشن سے قبل امریکہ کا پاک افغان سرحد سے چیک پوسٹیں ختم کرنا سوالیہ نشان ہے
بگرام ایئر بیس سے دو امریکی ہیلی کاپٹر پاکستان آئے اور17طالبان رہنماؤں کو افغانستان لے گئے ، حکومت اس کا جواب دے موجودہ قیادت سے توقعات رکھنا غلط ہے ، ان ہاؤس تبدیلی ناگزیر ہے ۔ ۔ ۔ سابق چیف آف آرمی سٹاف کا انٹرویو

اسلام آباد۔ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ نے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان کو توڑ نے کی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ جنوبی وزیرستان سے پہلے امریکہ کا پاک افغان باڈر پر چک پوسٹیں ختم کرنا اور بگرام ایئر بیس سے دو ہیلی کاپٹرز کا پاکستان سے 17طالبان رہنماؤں کو افغانستان لے جانا سوالیہ نشان ہے حکومت اس کا جواب دے ۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیری لوگر بل میں آرمی اور آئی ایس آئی کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے موجودہ قیادت سے توقعات رکھنا غلط ہے اس وقت ملک میں ان ہاؤس تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ ان خیالات کا اظہار اسلم بیگ نے نجی ٹی وی انٹرویو میں کیا ۔جنرل(ر) مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ بگرام ایئر بیس سے دو امریکی ہیلی کاپٹروزیرستان آئے اور سترہ طالبان رہنماؤں کو لے کر چلے گئے حکومت اس بات کا جواب دے کہ ایسا کیوں ہوا؟ پرویز مشرف نے امریکہ اور اتحادیوں کی سازشوں کا حصہ بن کر وزیرستان میں آپریشن کیا جس کے نتائج آج ہم ملک بھر میں دہشت گردی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ اسلم بیگ نے کہاکہ ہمیں پہلے سازشوں کا ادراک ہونا چاہیے اور ان کا توڑ کرنے کی ہم میں صلاحیت ہے آج ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم ان سازشوں کو سمجھ نہیں رہے آج ہمارا جمہوری نظام خطرے میں ہے علاقائی سرحدیں خطرے میں ہیں افواج پاکستان اس وقت خطرے میں ہیں ، آئی ایس آئی خطرے میں ہے اور ہماری ایٹمی صلاحیت خطرے میں ہے انہوں نے کہاکہ بے نظیر بھٹو سے ڈیل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جب وہ پاکستان آئیں تو انہوںنے عوامی موڈ دیکھنے کے بعد ڈیل سے منحرف ہو گئیں اورظالموں نے انہیں منظر سے ہٹا دیا موجودہ حکومت بھی ڈیل کے نتیجے میں وجود میں آئی اور اس ڈیل کے اثرات آج ہم دیکھ رہے ہیں مشرف کی اجازت دینے کے بعد سی آئی اے سرحدی علاقے میں پھیل گئی اور پاکستانی ایجنسیوں کو پیچھے ہٹا لیا گیا اور افغانستان میں موجود بھارت کا نیٹ ورک سی آئی اے کے ساتھ شامل ہو گیا اور دیر ، باجوڑ ، سوات ، وزیرستان اور بلوچستان تک کے علاقے کو کھوکھلا کر دیا گیا ہے اور سینکڑ وں جاسوس اس علاقے میں موجود ہیں اسلم بیگ نے کہاکہ بگرام ایئر بیس سے دو ہیلی کاپٹر پاکستان آئے اور وزیرستان سے سترہ افراد کو لے کر چلے گئے اور دوسرے دن ان کو بگرام سے جبل سلراط پہنچا دیا گیا حکومت کو اس بارے جواب دینا چاہیے ۔فوج اور آئی ایس آئی کو کیری لو گر بل میں ٹارگٹ کیا گیا ہے انہوں نے کہاکہ ان سازشوں کی تفصیل ایک حد تک ہماری حکومت کو معلوم ہے اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان سازشوں کا کیسے مقابلہ کرنا ہے اسلم بیگ نے کہاکہ فوج کی تبدیلی آئی جب سوات میں فوجی آپریشن کیا گیا تو ہماری دوستوں کو بہت تکلیف ہوئی کہ اب پھر آئی ایس آئی اسی علاقے میں آ گئی ہے جس میں ان کو گھومنے پھرنے کی آزادی ہے۔ پرویز مشرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سازش کا حصہ بن کر وزیرستان کے عوام پر چڑ ھ دوڑ ے جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد امریکہ نے افغانستان بارڈر پر اپنی گیارہ چیک پوسٹیں کیوں ختم کر دیں یہ سوالیہ نشان ہے انہوں نے کہاکہ عوام کی بیداری کی وجہ سے عدلیہ بحالی تحریک کامیاب ہوئی اور آج عدلیہ بڑ ے بڑ ے فیصلے کرنے میں آزاد ہے انہوں نے کہاکہ فوج کے کیری لوگر بل پر اعتراض کے بعد حکومتی جواب نہ ملنے پر مقدمہ عوام کے سامنے پیش کیا ۔ ہماری حکومت کی ترجیحات اور ہیں اور اس قیادت سے توقعات غلط ہیں

جی ایچ کیو اور دیگر حساس اداروں پر حملے امریکہ کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ مرزا اسلم بیگ

پاکستان میں تخریب کاری کے لئے بلیک واٹر قبائلیوں کو دھوکے سے ترغیب دے کر استعمال کر رہی ہے

تخریبی کاروائیوں کا اگلا ہدف ایٹمی تنصیبات ہو سکتی ہے

سابق آرمی چیف اور دفاعی تجزیہ کار کا انٹرویو

اسلام آباد ۔۔ سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ جی ایچ کیو اور دیگر حساس اداروں پر حملے امریکہ کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیے جا رہے ہیں۔ بلیک واٹر اور دیگر تنظیموں کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ قبائلیوں کو دھوکہ اور ترغیب دے کر پاکستان میں تخریب کاری کے منصوبے کو عملی جامعہ پہنایا جائے اور اس کا آغاز کر دیا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ دہشت گردوں کا اگلاہدف ایٹمی تنصیبات ہو سکتی ہیں۔ ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ اگر سیکورٹی کے مزید اقدامات نہ کئے گئے تو آئندہ کہوٹہ ڈاکٹر اے کیو خان لیبارٹریز اور دیگر حساس تنصیبات پر حملے ہو سکتے ہیں لہذا حکومت کو اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔انھوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کی لہر میں شدت آگئی ہے ۔ جس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ امریکیوں کی طرف سے ہزاروں مشین گنیں دھماکہ خیز مواد اور دیگر بھاری اسلحہ بارود پاکستان لانے پر پابندی کی وجہ سے ان کو تکلیف ہوئی ہے اور اس کی پاداش میں انھوں نے پاکستان کی اہم تنصیبات پر حملے کرانے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ امریکیوں کو اس بات کی سخت تکلیف ہوئی ہے کہ ان پر پاکستان میں آزادانہ آنے اوراسلحہ بارود لانے پر کیوں پابندی عائد کی گئی ہے ۔ مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ حکومت ہوشیار رہے ۔ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر بھی حملہ ہو سکتا ہے ۔ مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کا قبضہ خطے میں تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ جب امریکہ یہاں نہیں آیا تھا خطے میں اس قسم کے حالات نہ تھے ۔ ان خراب حالات کے اصل ذمہ دار امریکہ اور پرویز مشرف ہیں۔ پرویز مشرف نے اپنی خفیہ ایجنیسیوں کو پیچھے کر کے امریکہ کو آگے کیا اور بلا سوچے سمجھے اور بغیر کسی سے مشورہ کئے امریکہ کی حمایت پر لبیک کہہ دی اور ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں جنگ ہار چکے ہیں اور اب وہ پاکستان سے مدد مانگ رہے ہیں طالبان کہہ رہے ہیں کہ امریکہ مزید فوجی افغانستان لائے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ ماریں ۔انھوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں جنگ کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے فوجی نہیں لا رہا بلکہ اس لیے کہ جب وہ یہاں سے نکلے تو اس کی کوئی دم نہ دبائے ۔ مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ جب تک امریکہ اور اس کے کم بخت اتحادی افغانستان سے نہیں نکلیں گے خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتار اور اب وہ وہاں سے نکلنے ہی والے ہیں۔ اگلا سال اس حوالے سے بڑا اہم ہے ۔ ایک سوال پر مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ مشرف نے سوات ، دیر اور دیگر جن علاقوں میں لشکر کشی کی وہاں حکومت کی عملداری ختم ہو گئی جب سے جنرل کیانی نے یہ کام شروع کیا ہے وہاں حکومت کی عملداری قائم ہوئی جا رہی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیت کا فرق ہے ۔مشرف نے جس علاقے پر لشکر کشی کی اس علاقے کو امریکہ اور بھارت کے حوالے کر رکھا تھا اور آج صورت حال اس کے برعکس ہے اور یہی وہ کشمکش ہے جو امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہے ہماری فوج دوبارہ ان علاقوں کو اپنے تسلط میں لانا چاہتی ہے جو ہمارے دشمنوں کے ساتھیوں میںچلا گیا ۔ مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ جنوبی وریرستان میں کاروائی ضروری ہے تاکہ وہاں سے فتنہ ختم کیا جا سکے

Thursday, October 29, 2009