Ugalisharif
Sunday, August 22, 2010
جوہری ہتھیاروں کے تجربے کے خلاف جاپان کا بھارت کو انتباہ
ایسے جوہری سمجھوتے کےلیےکوششیں تیز کی جائیں گی جودونوں فریقین کو قابلِ قبول ہو: ایس ایم کرشنا
جاپانی وزیرِ خارجہ کٹسویا اوکاڈا نے کہا ہےاگر بھارت جوہری ہتھیاروں کےتجربےکرتا ہےتو جاپان بھارت کےساتھ ہر طرح کا جوہری تعاون معطل کردے گا۔
اوکاڈا نے بھارتی دارلحکومت کے دورے میں ہفتے کو اپنے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا کےساتھ دوطرفہ اسٹریٹجک مذاکرات کیے۔ اُنھوں نے کہا کہ دونوں فریقوں نے قریبی معاشی اور سیاسی تعلقات پر بات چیت کی، جس میں مجوزہ سویلین جوہری سمجھوتا شامل ہے۔
اوکاڈا نے بھارتی عہدے داروں پر زور دیا کہ سمجھوتے میں تخفیفِ اسلحہ اور جوہری عدم پھیلاؤ کی شقیں شامل کرنے کے سلسلے میں کام کیا جائے جِس کے بعدہی جاپان بھارت کو نیوکلیئر پاور ٹیکنولوجی درآمد کرسکے گا۔
لیکن دوسری جنگِ عظیم کے دوران جاپان کےہیروشیما اور ناگاساکی شہروں میں امریکی ایٹمی بمباری میں زندہ بچ جانے والے افراد اِس سمجھوتے کی مخالفت کرتے ہیں۔
کرشنا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ دونوں نے اِس بات پر اتفاق کیا کہ ایسے جوہری سمجھوتے کے لیے کوششیں تیز کی جائیں گی جودونوں فریقین کو قابلِ قبول ہو۔
بھارت نے ماضی میں جوہری عدم پھیلاؤ کے سمجھوتے پر دستخط نہیں کیے اور جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے ہیں۔
بھارت کے بعد، جاپانی وزیرِ خارجہ ابیشٹ وِجا جیوا اور اعلیٰ عہدے داروں سے بات چیت کے لیے تھائی لینڈ کا دورہ کریں گے ۔
ایرانی بمبار ڈرون کی نمائش
ایران نے مقامی طور پر تیار کردہ پہلے بغیر پائلٹ بمبار طیارے یا ڈرون کی نمائش کی ہے ۔ایرانی فوج نے اتوار کے روز ایک تقریب میں طویل فاصلے تک پرواز کرنے والے بغیر پائلٹ طیارے کی نمائش کی ہے۔
کرار نامی ڈرون کو دفاعی صنعت کے قومی دن کے موقع پر منعقد کی گئی ایک تقریب میں منظر عام پر لایا گیا۔ اس موقع پر ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور اعلیٰ فوجی افسران بھی موجود تھے۔ ایرانی صدر نے مقامی طور پر تیار کردہ طیارے کو دشمنوں کے لئے موت کا نشان قرار دیا ہے۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق یہ طیارہ انتہائی تیز رفتاری سے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر تک فاصلہ طے کرنے اور دو سو کلو گرام وزن کا بم لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
تقریب سے خطاب کرتے ہو ئے احمدی نژاد نے کہا کہ ایران کسی پر حملہ نہیں کرنا چاہتا مگر ٕان کا ملک مظالم کے سامنے آرام سے نہیں بیٹھ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس طیارے کا مقصد بیرونی جارحیت کو روکنا ہے۔ ایرانی صدر نے کہا کہ طیارہ انسانیت کے لئے نجات اور عزت کا باعث بنے گا۔
ایران نے اسی کی دہائی میں عراق کے ساتھ جنگ کی وجہ سے لگائی گئی امریکی پابندیوں کے بعد ملک میں ہتھیاروں کی پیداوار کے پروگرام کا آغاز کیا تھا اور اُس کا کہنا ہے کہ ملک ڈرون طیاروں کے علاوہ ٹینک، بکتربند گاڑیاں، میزائل ، تارپیڈو اور جنگی ہوائی جہاز تیار کر نے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ان کا ملک بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود دفاعی شعبے میں ترقی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایران نے چند روز قبل بوشہر میں واقع جوہری بجلی گھر میں ایندھن استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔یہ ایٹمی بجلی گھر روس کی مدد سے بنایا گیا ہے اور جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے انسپیکڑ بھی اس موقع پر موجود تھے ۔پچھلے ہفتے کے دوران ایران نے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کا ٹیسٹ بھی کیا ہے۔
اگست کے شروع میں ایران نے مقامی طور پر تیار کردہ چار نئی آب دوزیں بحریہ میں شامل کی ہیں۔
ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے بارے میں بحران جاری ہے اور اسرائیل کی جانب سے اس کی ایٹمی تنصیبات پر ممکنہ حملے کے بارے میں قیاص آرائیاں بھی جاری ہیں۔
امریکہ، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ ایران جوہری اسلحہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ ایران کا موقف ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے۔
ایران میں پہلےجوہری پاور پلانٹ کا افتتاح
ہفتے کو ایران میں انجنئیروں نے ملک کے پہلے نیوکلیئر پاور پلانٹ میں ایندھن بھرنا شروع کر دیا ہے۔
یہ تنصیب جنوبی قصبے بوشہر میں واقع ہے۔
ایرانی ٹیلی ویژن نے وِڈیو دکھائی ہے جِس میں ایرانی اور روسی عہدے داروں کو سفید رنگ کےلیبارٹری کوٹ پہنے تنصیب کا دورہ کرتے دکھایا گیا ہے، جوپلانٹ کےافتتاح کی تقریب کا حصہ ہے۔ روس نے اِس تنصیب کی تعمیرمیں مدد کی ہے اور ری ایکٹر کے لیے ایندھن مہیا کر رہا ہے۔
تنصیب کے سائٹ پر ہونے والی نیوز کانفرنس میں ایران کے جوہری توانائی کے سربراہ علی اکبر صالحے نے تعاون کرنے پر روس کا شکریہ ادا کیا۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ مغربی اقوام کی طرف سے دباؤ، پابندیوں اور مشکلات کے باوجود ایران ایسے کام کا آغاز کر رہا ہے، جو اُن کے بقول، ملک کی پُر امن جوہری سرگرمیوں کی سب سے بڑی علامت کا درجہ رکھتاہے۔
ایران کے ‘پریس ٹی وی’نے کہا ہے کہ پلانٹ کے ری ایکٹر میں ایندھن کی 163سلاخوں کی منتقلی کا کام پانچ ستمبر کو مکمل ہو جائے گا۔ خبروں کے ادارے کا کہنا ہے کہ ایرانی عہدے داروں کو توقع ہے کہ آئندہ دو سے تین ماہ کےاندر جوہری توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی استعمال کی جاسکے گی۔
سیالکوٹ : دوبھائیوں کے قتل پر انسانی حقوق کی تنظیمیں سراپا احتجاج
سیالکوٹ میں پولیس اور مقامی آبادی کی موجودگی میں دو نو جوان بھائیوں کو تشدد کر کے قتل کرنے کے واقعہ پرانسانی حقوق کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ انتظامیہ اور لوگوں کے ایک بڑے ہجوم کے سامنے قتل کا یہ واقعہ لحمہ فکریہ ہے۔
دو نوجوانوں بھائیوں حافظ مغیث اور حافظ منیب کو رواں ہفتے کے اوائل میں ڈکیتی کے الزام میں سرعام تشدد کر کے ہلاک کیا گیا تھا ۔ لیکن اس واقع کی ویڈیو نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھائے جانے کے بعد جمعرات کو عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا تھا۔
مقتول بھائیوں کے ورثاء کا کہنا ہے کہ دونوں بے گناہ تھے اور اُنھوں نے مجرموں کو قرار واقع سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
عدالت عظمٰی کے حکم پر اس واقع کی تحقیق کرنے والے ریٹائرڈ جسٹس کاظم ملک نے ہفتے کے روز میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی جائیں گی۔
گوجرانوانہ کے ریجنل پولیس آفیسر ذوالفقار چیمہ نے بتایا ہے کہ پنجاب پولیس کے سربراہ نے بھی پولیس کے دو اعلیٰ عہدیداروں کی زیر صدارت اس واقع کی تحقیقات کا حکم دے رکھا ہے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ سرعام قانون کو ہاتھ میں لے کر دونوجوانوں کو بے دری سے قتل کرنے کے واقعے سے بیرونی دنیا میں بھی پاکستان کی ساکھ متاثر ہو گی۔
آخر اتنی سفاکی اور بے حسی کیوں؟
سیالکوٹ کے ایک نواحی گاؤں بٹر میں 15 اگست کو چندافراد نے دو نو عمر بھائیوں کو بھرے مجمعے اور پولیس کی موجودگی میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ڈنڈے مار مار کر انھیں ہلاک کر دیا۔
”پچھلے چند برسوں سے ہم جس قسم کی دہشت گردی میں مبتلا ہیں اس کی وجہ سے انسانی زندگی بے وقعت ہو کر رہ گئی ہے اور موت بہت سستی نظر آنے لگی ہے“۔
پاکستان ان دنوں تباہ کن سیلاب کے باعث افسردہ اور کسی حد تک مایوس کن صورت حال میں گھرا ہوا ہے لیکن اس دوران صوبہ پنجاب میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے عوام پر حالیہ قدرتی آفت سے کہیں زیادہ دہشت طاری کر دی ہے۔
معیاری آلات جراحی اور کھیلوں کے سامان کی تیاری کے سلسلے میں عالمگیر شہرت رکھنے والے شہر سیالکوٹ کے ایک نواحی گاؤں بٹر میں 15 اگست کو چندافراد نے دو نو عمر بھائیوں کو بھرے مجمعے اور پولیس کی موجودگی میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ڈنڈے مار مار کر انھیں ہلاک کر دیا۔
18سالہ حافظ مغیث اور 15 سالہ منیب کی نیم برہنہ لاشوں کو نہ صرف شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر گھسیٹاگیا بلکہ ایک مقام پر انھیں تاروں سے اْلٹا لٹکا دیا گیا۔ یہ تمام کارروائی بیسیوں افراد نے دیکھی جن میں بوڑھے، جوان اور بچے سب ہی شامل تھے۔
بظاہر کسی” تماشائی “ نے اس بے رحمانہ تشددکی ویڈیو فلم بنا نے کے بعد ٹی وی چینلز کو فراہم کردی جو پچھلے کئی روز سے بار بار نشر کی جارہی ہے۔ فلم کے مناظر میں حملہ آوروں اور جائے وقوعہ پر موجود پولیس حکام کے چہرے واضح طور پر نظر آئے لیکن بظاہر کسی مرحلے پر محسوس نہیں ہوا کہ کسی کے دل میں رحم آیا ہواور اس سفاکانہ عمل کو روکنے کی کوشش کی ہو ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ خون ریز جرائم اور دہشت گردانہ حملوں کے باعث انسانی جان کی بدستور گھٹتی ہوئی اہمیت سماجی مسائل کا مطالعہ کرنے والے ماہرین اور سوچ سمجھ رکھنے والے ہر شخص کے لیے لمحہ فکریہ ہے اوریہ حالیہ واقعہ پاکستانی معاشرے میں ”بڑھتی ہوئی بے حسی “کی عکاسی کرتا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ایچ آر سی پی کے چیئر مین ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ ”پچھلے چند برسوں سے ہم جس قسم کی دہشت گردی میں مبتلا ہیں اس کی وجہ سے انسانی زندگی بے وقعت ہو کر رہ گئی ہے اور موت بہت سستی نظر آنے لگی ہے“۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں گذشتہ سالوں میں لاقانونیت کئی گنا بڑھی ہے اور سب سے زیادہ اضافہ راہ چلتے کیے جانے والے جرائم میں ہوا ہے جب کہ لوگ ان وارداتوں کا شکار ہو کر یا ان کے بارے میں سن کر اس حد تک تنگ آچکے ہیں کہ اگر ملزمان کو سزا دینے کی بات کی جائے تو ایک بڑی تعداد میں لوگوں کا فوری ردعمل عموماً انہی الفاظ کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ ”ان کو ختم کر دینا چاہیئے“۔
شاید اسی صورتحال کا فائدہ سیالکوٹ کے رہائشی سگے بھائیوں کے قاتلوں نے بھی اٹھایا اور ان دونوں نوجوانوں پر ڈکیتی کا الزام لگا کر سرعام ڈنڈوں سے پیٹنا شروع کر دیا ۔کسی شخص نے اس کارروائی کی مزاحمت کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ یاتو مجموعی طور پر ڈاکووٴں کے خلاف غصہ یا ممکنہ طور پر خود اس تشدد کا نشانہ بن جانے کا خوف تھا۔ سرکاری عہدے داروں اور پولیس کا کہنا ہے کہ مغیث اور منیب کے کسی جرم میں ملوث ہونے کی تصدیق یا تردید مکمل تفتیش کے بعد ہی ممکن ہے البتہ بعض حکام اور اہل محلہ کی اکثریت کے مطابق دونوں نوجوان بے قصور تھے۔
عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس واقعہ کا ازخود نوٹس لیا اور ان کے حکم پر سابق جج کاظم ملک اس سانحہ کی تفتیش کر رہے ہیں ۔ کاظم ملک رواں ماہ کے اواخر تک اپنی رپورٹ پیش کریں گے جب کہ عدالت عظمیٰ میں اس واقعہ کے حوالے سے اگلی کارروائی یکم ستمبر کو ہو گی۔
پولیس نے اس دوہرے قتل کے الزام میں درجن سے زائد پولیس اہلکاروں سمیت 30 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر رکھا ہے جب کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کے مطابق دس افراد اور چار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ تاہم سیالکوٹ پولیس کے سربراہ وقار چوہان، جو خود جائے وقوعہ پر موجود تھے، کو آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی لگادیا گیا ہے جب کہ ایک مرکزی ملزم اور تھانہ سیالکوٹ کے اس وقت کے ایس ایچ او رانا الیاس علاقے کے ایک اعلیٰ پولیس افسر کے دفتر سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور تاحال مفرور ہیں۔
وزیر داخلہ رحمان ملک نے اتوار کو مقتولین کے والدین سے ان کے گھر پر ملاقات کی جہاں میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ بعض افراد کے ملک سے باہر بھاگ جانے کا خطرہ ہے جس کے پیش نظر ان کے نام اْن افراد کی فہرست میں شامل کیے جا رہے ہیں جن کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں۔
پولیس حکام کی اس تمام واقعہ میں مجرمانہ غفلت سے ان کے کردار کے حوالے سے عوام میں کئی قسم کے تحفظات پائے جا رہے ہیں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ پولیس اپنے اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرے گی۔
صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اتوار کے روز اس دوہرے قتل کی تحقیقات ایک ہفتے کے اندر مکمل کرنے کا عزم ظاہر کیا اور بتایا کہ وہ اس عمل کی خود نگرانی کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ تفتیش کے دوران اس بات کا بھی تعین کیا جائے گا کہ آیا مشتبہ پولیس اہلکار خود فرار ہوئے ہیں یا ان کو دانستہ طور پر فرار کرایا گیا ہے۔
پنجاب کے شہر سیالکوٹ کی پولیس نے دو سگے نوجوان بھائیوں کے سر عام، متعدد شہریوں اور پولیس کی موجودگی میں ڈنڈوں، لاتوں گھونسوں سے تشدد کر کے قتل کرنے کے الزام میں پولیس اہکاروں سمیت دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔
پندرہ اگست کو پیش آنے والے اس واقعے کی پاکستان میں مقامی ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے والی ویڈیو فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ دونوں بھائیوں کو وحشیانہ طریقے سے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو شہر میں گھومایا گیا۔
اس فوٹیج کے سامنے کے بعد سے پاکستانی حلقوں میں ذرائع ابلاغ میں بحث جاری ہے کہ معاشرے میں کیا حالات تو اس طرح کا انتہائی رویہ سامنے آتا ہے۔
اس وحشیانہ واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی قتل کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے
اقبال حیدر
یہ واقعہ سیالکوٹ کے قریبی علاقے بٹر گاؤں میں پیش آیا جب اطلاعات کے مطابق اٹھارہ سالہ حافظ معیث اور پندرہ سالہ منیب کو پہلے رسیوں سے باندھا گیا اور اس کے بعد دونوں بھائی پر ڈنڈوں سے تشدد کر کے انہیں ہلاک کردیا گیا۔ ان کی لاشوں کو الٹا بھی لٹکایا گیا۔
فلم میں دونوں بھائیوں پر کچھ لوگ آگے بڑھ کر پوری طاقت سے جسم کے ہر حصے پر ڈنڈے برسا رہے تھے۔ لڑکوں کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی دکھائی گئی۔
یہ عمل ان کی ہلاکت کے بعد بھی جاری رہا۔ اس دوران ایک مجمع اس واقعے کو خاموشی سے دیکھتا رہا۔ مجمع میں کم عمر کے لڑکے بھی شامل ہیں۔
مقدمے میں پولیس اہلکاروں پر غفلت برتنے جبکہ دیگر افراد پر قتل کرنے اور اعانت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ خیال رہے کہ پولیس نے ہلاک کیے جانے والے دونوں بھائیوں کے خلاف مسلح ڈکیتی کرنے کے الزام میں مقدمہ بھی درج کیا تھا۔
پولیس کا کردار قابل مذمت ہے جس کا کسی طور کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا
پولیس آفیس ذوالفقار چیمہ
سپریم کورٹ کی طرف سے پولیس کی موجودگی میں دو بھائیوں کی ہلاکت کے واقعہ پر کارروائی کے بعد ضلع کی پولیس سربراہ یعنی ڈی پی او کو او ایس ڈی بنادیا گیا۔ مقدمہ میں نامزد پانچ پولیس اہلکاروں سمیت بارہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے حکم پر اس واقعے کے بارے میں قائم ہونے والی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ اور محکمہ انسدادرشوت ستانی کے ڈائریکٹر جنرل کاظم ملک نے کہا ہے کہ واقعے کی تحقیقات سات دنوں میں مکمل کر کے رپورٹ عدالت کو بھجوا دی جائے گی۔
جمعہ کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے متعدد افراد کی طرف سے پولیس کی موجودگی میں دو سگے بھائیوں پر سرعام تشدد اور ان کی ہلاکت کے واقعہ کا ازخود نوٹس لیااور اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
قتل کے الزام میں جو مقدمہ درج کیا گیا اس میں پولیس کے تیرہ اہلکار کے علاوہ دیگر سترہ افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔مقدمہ میں پولیس کے ایس ایچ او کو بھی نامزد کیا گیا جو بقول مقامی میڈیا کے پولیس حراست سے فرار ہوگئے ہیں۔
ریجنل پولیس آفیسر ذوالفقار علی چیمہ نے ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کا کردار قابل مذمت ہے جس کا کسی طور کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔
انسانی حقوق کے کام کرنے والے مختلف تنظیموں نے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملزموں کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ سابق وزیر قانون سید اقبال حیدر نے کہا ہے کہ اس وحشیانہ واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی قتل کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔
واقعے کے ایک ہفتے کے بعد جب اس کی ویڈیو فلم مقامی چینلوں پر نشر کی گئی تو چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری نے واقعہ کا ازخود نوٹس لیا۔