Sunday, August 22, 2010

بھرے مجمع میں ڈنڈوں سےقتل

پولیس اہلکار

پنجاب کے شہر سیالکوٹ کی پولیس نے دو سگے نوجوان بھائیوں کے سر عام، متعدد شہریوں اور پولیس کی موجودگی میں ڈنڈوں، لاتوں گھونسوں سے تشدد کر کے قتل کرنے کے الزام میں پولیس اہکاروں سمیت دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔

پندرہ اگست کو پیش آنے والے اس واقعے کی پاکستان میں مقامی ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے والی ویڈیو فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ دونوں بھائیوں کو وحشیانہ طریقے سے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو شہر میں گھومایا گیا۔

اس فوٹیج کے سامنے کے بعد سے پاکستانی حلقوں میں ذرائع ابلاغ میں بحث جاری ہے کہ معاشرے میں کیا حالات تو اس طرح کا انتہائی رویہ سامنے آتا ہے۔

اس وحشیانہ واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی قتل کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے

اقبال حیدر

یہ واقعہ سیالکوٹ کے قریبی علاقے بٹر گاؤں میں پیش آیا جب اطلاعات کے مطابق اٹھارہ سالہ حافظ معیث اور پندرہ سالہ منیب کو پہلے رسیوں سے باندھا گیا اور اس کے بعد دونوں بھائی پر ڈنڈوں سے تشدد کر کے انہیں ہلاک کردیا گیا۔ ان کی لاشوں کو الٹا بھی لٹکایا گیا۔

فلم میں دونوں بھائیوں پر کچھ لوگ آگے بڑھ کر پوری طاقت سے جسم کے ہر حصے پر ڈنڈے برسا رہے تھے۔ لڑکوں کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی دکھائی گئی۔

یہ عمل ان کی ہلاکت کے بعد بھی جاری رہا۔ اس دوران ایک مجمع اس واقعے کو خاموشی سے دیکھتا رہا۔ مجمع میں کم عمر کے لڑکے بھی شامل ہیں۔

مقدمے میں پولیس اہلکاروں پر غفلت برتنے جبکہ دیگر افراد پر قتل کرنے اور اعانت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ خیال رہے کہ پولیس نے ہلاک کیے جانے والے دونوں بھائیوں کے خلاف مسلح ڈکیتی کرنے کے الزام میں مقدمہ بھی درج کیا تھا۔

پولیس کا کردار قابل مذمت ہے جس کا کسی طور کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا

پولیس آفیس ذوالفقار چیمہ

سپریم کورٹ کی طرف سے پولیس کی موجودگی میں دو بھائیوں کی ہلاکت کے واقعہ پر کارروائی کے بعد ضلع کی پولیس سربراہ یعنی ڈی پی او کو او ایس ڈی بنادیا گیا۔ مقدمہ میں نامزد پانچ پولیس اہلکاروں سمیت بارہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے حکم پر اس واقعے کے بارے میں قائم ہونے والی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ اور محکمہ انسدادرشوت ستانی کے ڈائریکٹر جنرل کاظم ملک نے کہا ہے کہ واقعے کی تحقیقات سات دنوں میں مکمل کر کے رپورٹ عدالت کو بھجوا دی جائے گی۔

جمعہ کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے متعدد افراد کی طرف سے پولیس کی موجودگی میں دو سگے بھائیوں پر سرعام تشدد اور ان کی ہلاکت کے واقعہ کا ازخود نوٹس لیااور اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

قتل کے الزام میں جو مقدمہ درج کیا گیا اس میں پولیس کے تیرہ اہلکار کے علاوہ دیگر سترہ افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔مقدمہ میں پولیس کے ایس ایچ او کو بھی نامزد کیا گیا جو بقول مقامی میڈیا کے پولیس حراست سے فرار ہوگئے ہیں۔

ریجنل پولیس آفیسر ذوالفقار علی چیمہ نے ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کا کردار قابل مذمت ہے جس کا کسی طور کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔

انسانی حقوق کے کام کرنے والے مختلف تنظیموں نے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملزموں کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ سابق وزیر قانون سید اقبال حیدر نے کہا ہے کہ اس وحشیانہ واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی قتل کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔

واقعے کے ایک ہفتے کے بعد جب اس کی ویڈیو فلم مقامی چینلوں پر نشر کی گئی تو چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری نے واقعہ کا ازخود نوٹس لیا۔

No comments: