Monday, November 2, 2009

این آر او پر پیپلز پارٹی کی مشکلات

حکمران پیپلز پارٹی کی طرف سے قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او کی پارلیمان سے منظوری کی کوششوں کے خلاف حزب اختلاف کی تمام جماعتیں بظاہر متحد ہو گئی ہیں جب کہ حکمران پیپلزپارٹی کی ایک بڑی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اس متنازع صدارتی حکم نامے پر اپنے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اس کی منظور ی کے حق میں ووٹ نہ دینے کا عندیہ دیا ہے جس سے بظاہر حکمران جماعت کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ایم کیوایم کے رکن قومی اسمبلی حیدر عباس رضوی نے پیر کو میڈیاسے بات چیت میں کہا کہ اُن کی جماعت این آراوسے استفادہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کی ایک دوسری اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان زاہد خان نے بتایا ہے کہ اُن کی جماعت این آرا و کے معاملے پر ملکی حالات کو مدنظر رکھ کرجلد فیصلہ کرے گی ۔

اسلام آباد میں پیر کومسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاسوں کے بعد ان جماعتوں کے قائدین نے الگ الگ پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این آر اوجیساقانون بنانا پاکستان کے جمہوری اداروں کو داغ دارکرنے کے مترادف ہے۔ نواز شریف نے کہاکہ ایسی قانون سازی سے” صدر آصف علی زرداری کو پرہیز کرنا چاہیے“ کیوں کہ مسلم لیگ (ن) ایسے کسی اقدام پر سمجھوتا نہیں کرے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کی جماعت این آر او پر کوئی درمیانی راستہ اختیارکرنے کی بجائے اس کی ”ڈٹ کر مخالفت“ کرے گی ”حکومت سے درخواست ہے کہ این آر او کو پارلیمان میں پیش کرنے سے گریز کر ے اور جموریت کو امتحان میں نا ڈالے“۔

مسلم لیگ (ن ) کے سربراہ نواز شریف نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ این آر او کے تحت اُن کی سیاسی جماعت کے ارکان کے مقدمات بھی معاف کیے گئے ہیں۔

مسلم لیگ (ق)کے قائدین چودھری شجاعت حسین، پرویز الہی اور سابق صدر فاروق لغاری نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اُن کی جماعت ملکی مفاد اور ایک شخص (صدر زرداری) کو تحفظ دینے کے قانون کی بھر پور مخالفت کرے گی۔

پارلیمان میں وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کے ارکان کی نمائندگی کرنے والے رکن قومی اسمبلی منیر اورکزئی کا کہنا ہے کہ فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ این آر او کے خلاف ووٹ دیں گے کیوں کہ اُن کے بقول وہ قومی دولت لوٹنے والوں کو معافی دلوانے میں حصہ دار نہیں بننا چاہتے۔

پیپلزپارٹی کی سیکرٹری اطلاعات فوزیہ وہاب کے مطابق این آر او پر تنقید کرنے والوں کو یہ سمجھناچاہیے کہ یہ وہ قانون ہے جس نے قومی مفاہمت کو فروغ دیااور ملک میں دشمنی اور بدلے کی سیاست کا خاتمہ کیا ہے۔ اُنھوں نے پیر کواسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ قومی مصالحتی آرڈیننس کی ہی بدولت 2008 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سب سے کم الزامات سامنے آئے ہیں اور فوزیہ وہاب کے بقول اس قانون کی شق نمبر تین کی وجہ سے انتخابی عمل میں شامل ریٹرنگ افسروں کو دھاندلی کا موقع ہی نہیں ملا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی 125نشستیں ہیں اور سادہ اکثریت سے این آر او کی منظوری کے لیے اسے ہر صورت میں اپنی ایک بڑی اتحادی جماعت ایم کیوایم کے 26 اراکین کی ضرورت ہوگی

فائل فوٹو

چوہدری نثار علی خان اور چوہدری پرویز الہیٰ اپنی تقاریر کے بعد ایوان سے واک آؤٹ کرکے چلے گئے

پیر کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں قومی مصالحتی آرڈیننس ’این آر او‘ کے خلاف سخت نعرہ بازی کی گئی۔ ہنگامہ آرائی کے دوران مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی سپیکر فہمیدہ مرزا سے سخت تلخ کلامی بھی ہوئی۔

مسلم لیگ (ن) نے مجوزہ ترمیمی بل پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے موجودہ حالت میں بل منظوری کے لیے پیش کیا تو جمہوری نظام کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت ابھی اس بارے میں مشاورت کر رہی ہے اور کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرے گی جس سے پارلیمان، جمہوری نظام یا ملکی وقار پر کوئی حرف آئے۔

قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے بعد کارروائی شروع ہوئی تو قائد حزب مخالف چوہدری نثار علی خان نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ ’این آر او بدنام زمانہ آرڈیننس ہے جو فوجی آمر نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جاری کیا۔‘

انہوں نے صدر آصف علی زرداری کا نام لیے بغیر انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کسی غیر جمہوری قوت کا آلہ کار نہیں بنیں گے مگر تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ قرآن کی قسم اٹھاتے ہیں پھر وعدہ خلافی کرتے ہیں، معاہدے کرتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہے۔‘

چوہدری نثار علی خان نے حکومت کو خبردار کیا کہ وہ حالات کو اس نہج پر نہ لے جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ کل تک ججوں کی بحالی کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ ججوں کی بحالی ممکن نہیں ہے۔ لیکن ان کے مطابق جب عوام سڑکوں پر نکلے تو فیصلہ ہوگیا اور آج بھی وہی حالات ہیں۔

چوہدری نثار علی خان نے حکومت کو خبردار کیا کہ وہ حالات کو اس نہج پر نہ لے جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ کل تک ججوں کی بحالی کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ ججوں کی بحالی ممکن نہیں ہے۔ لیکن ان کے مطابق جب عوام سڑکوں پر نکلے تو فیصلہ ہوگیا اور آج بھی وہی حالات ہیں۔

اس دوران مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر پرویز الہیٰ نے جب ’این آر او‘ کی مخالفت میں تقریری کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سیاہ قانون ہے اور وہ منظور نہیں ہونے دیں گے۔ اس پر حکومتی اراکین نے بھرپور انداز میں ڈیسک بجا کر ان پر طنز کیا کیونکہ جب پرویز مشرف نے سنہ دو ہزار سات میں ’این آر او‘جاری کیا تھا تو اس وقت مسلم لیگ (ق) کی حکومت تھی اور پرویز الہیٰ وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔

ایوان میں مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے درمیاں ’این آر او‘ پر مکمل آہنگی نظر آئی اور ایک دوسرے کو بدعنوان اور آمروں کی پیدا وار قرار دینے والے چوہدری نثار علی خان اور چوہدری پرویز الہیٰ ایک دوسرے کو صاحب صاحب پکارتے رہے۔ وہ اپنی تقاریر کے بعد ایوان سے واک آؤٹ کرکے چلے گئے۔

چوہدری نثار علی خان نے اپنی تقریر اس مصرعہ پر ختم کی کہ ’اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے۔‘ ان کی تقریر کے دوران اور بعد میں مسلم لیگ (ن) کے عابد شیر علی اور دیگر نے’این آر او نامنظور‘ کے زوردار نعرے لگائے۔ جس پر گیلری میں بیٹھی ایک پیپلز پارٹی کی بظاہر حامی خاتون نے مسلم لیگ(ن) کے نعرے لگانے والے اراکین کے خلاف کچھ بات کی تو اراکین نے ہنگامہ کردیا اور سپیکر کی ہدایت پر سکیورٹی کے عملے نے اس خاتون کو باہر بھیج دیا۔

حکومت ابھی اپنی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کر رہی ہے اور وہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے پارلیمان، جمہوری نظام یا ملکی وقار پر کوئی حرف آئے۔سب کو اعتماد میں لے کر این آر او کے بارے میں فیصلہ کریں گے

وزیر اعظم گیلانی

اپوزیشن کے ساتھ فاٹا کے چند اراکین بھی باہر چلے گئے لیکن فاٹا کے کچھ اراکین نے حکومت کا ساتھ دیا۔ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ایوان سے خطاب میں کہا کہ حکومت ابھی اپنی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کر رہی ہے اور وہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے پارلیمان، جمہوری نظام یا ملکی وقار پر کوئی حرف آئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سب کو اعتماد میں لے کر این آر او کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔

پیر کو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے این آر او کی بھرپور مخالفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب حکومت کی ایک بڑی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے این آر او کی مخالفت میں بیان دیا گیا۔

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے آج صدر آصف علی زرداری کو ان کے بقول التجا کی ہے کہ وہ جمہوری نظام کی خاطر اپنے چند ساتھیوں سمیت قربانی دے دیں۔ تاہم بعد میں انہوں نے وضاحت کی کہ انہوں نے صدر کومستعفیٰ ہونے کے لیے نہیں کہا۔

ایم کیو ایم کی جانب سے این آر او کی مخالفت کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ملکی سیاست میں ایک بھونچال آگیا ہے اور صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے صدر نے اپنی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں اور اتحادی جماعتوں بشمول ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈرز سے مشاورت کر رہے ہیں۔

No comments: