Sunday, October 11, 2009

جس دیو کو پروان چڑھایا وہی خطرہ بن گیا“

وزیر اطلاعات قمر الزماں کائرہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی یا انتہا پسندی ایسا مسئلہ نہیں جو دنوں میں حل ہو سکے بلکہ یہ ایک ”ادارے اور رجحان“ کا نام ہے جس کا خاتمہ وقت کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

اتوار کے روز لاہور میں ذرائع ابلاغ سے وابستہ جنوبی ایشائی خواتین کی دو روزہ کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”ہماری جنگ صرف طالبان القائدہ، لشکرطیبہ یا دوسری عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ نہیں بلکہ اُن تمام تر عناصر کے خلاف ہے جو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں“۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اس دیو کا نام ہے جس نے گذشتہ دو سے تین دہائیوں کے دوران اس خطے میں اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں۔ وفاقی وزیرنے کہا کہ” افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے دوران پاکستان سمیت دنیا بھر نے وقت کی ضرورت کے تحت جس دیو (جنگجوؤں) کو پروان چڑھایا آج وہی سلامتی کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے جس سے مل کر نمٹنے کی ضرورت ہے۔

وفاقی وزیر کے مطابق پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی کامیابیاں حاصل کر رہا ہے جس کی واضح مثال مالا کنڈ ڈویژن میں جنگجوؤں کا ایک قلیل عرصے میں خاتمہ ہے۔

قمر الزماں کائرہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے جو وہ کسی کے ایماء پر نہیں بلکہ اس خطے میں اور عالمی سطح پر امن کو یقینی بنانے کے لیے لڑ رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں علاقائی ملکوں خاص طور پر بھارت اور افغانستان سے تعاون نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پڑوسی ملک بھارت افغانستان میں امن نہیں ہو گا تو پاکستان میں بھی امن کا قیام ممکن نہیں۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ممبئی حملوں کے بعد منقطع ہونے والا امن کا عمل بحال کرے بصورت دیگر اس کا فائدہ ان دہشت گرد گروپوں کو ہو گا جو جنوبی ایشیا میں امن و استحکام نہیں دیکھنا چاہتے۔

وفاقی وزیر نے یقین دلایا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ ممبئی حملوں کی تحقیقات کے معاملے پر بھرپور تعاون کر رہا ہے اور کرتا رہے گا ”اس لیے نہیں کہ ہم بھارت کو خوش کرنا چاہتے ہیں بلکہ اس لیے کہ امن کو برقرار رکھنا ہماری ذمہ داری ہے“۔

تقریب کے بعد صحافیوں سے باتیں کر تے ہوئے قمر الزماں کائرہ نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ فوج کے ہیڈ کوارٹرز پر ہونے والے حملے میں سیکورٹی کے انتظامات کے حوالے سے کوئی کوتاہی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ جی ایچ کیو کی عمارت ایسی جگہ واقع ہے جہاں سویلین آبادی بھی ہے اور یہاں سے روزانہ ان گنت گاڑیوں کا گزر ہوتا ہے جن کو روکنا ممکن نہیں۔

سکیورٹی ایجنسیاں، ذمہ داریاں کیا؟

فوجی ہیڈ کواٹر کا پہلا گیٹ عبور کر کے حملہ آور دوسرے گیٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

مالاکنڈ اور قبائلی علاقوں میں آپریشن کے بعد حکومتی دعوے کہ شدت پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ہے، شدت پسند ایک مرتبہ پھر سرگرم ہوگئے ہیں اور گزشتہ پانچ دنوں کے دوران شدت پسندوں نے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی اور پشاور میں تین حملے کیے ہیں۔

ان حملوں میں ساٹھ سے زائد افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں ۔

سنیچر کے روز راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر کے قریب ہونے والے حملے میں ایک مرتبہ پھر شدت پسندوں نے سیکورٹی فورسز کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی اور انہوں نے کمانڈو یونیفارم پہنا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہوئے۔ حملہ آور جی ایچ کیو کے علاقے میں تو پہنچنے میں ضرور کامیاب ہوئے تاہم اُس کی عمارت میں پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

اس سے قبل پانچ اکتوبر کو اسلام آباد کے علاقے سیکٹر ایف ایٹ میں اقوام متحدہ کے ادراہ برائے خوراک کے دفتر میں ہونے والے خودکش حملے میں بھی خودکش حملہ آور نے فرنٹیئر کانسٹیبلری کی وردی پہنی ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ اس عمارت کے باہر فرنٹیئر کانسٹیبلری کے چار اہلکار ہر وقت ڈیوٹی پر تعینات ہوتے ہیں۔

پاکستان کے کئی شہروں میں ایسی بے شمار دکانیں ہیں جہاں پر پولیس کے علاوہ فوج، رینجرز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کی وردیاں فروخت ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں پر مختلف رینک کے بیجز، بیلٹ اور ٹوپیاں بھی دستیاب ہوتی ہیں۔

پولیس کے مطابق ان افراد کو کوئی لائسنس جاری نہیں کیا جاتا اور نہ ہی یہ دکانداد وردی خریدنے والے سے اُس کی شناخت یا محکمے کا کارڈ پوچھنے کی زحمت کرتے ہیں۔

پولیس کے محکمے میں کانسٹیبل سے لیکر سب انسپکٹر کے افسر کو ہر سال محکمے کی طرف سے دو یونیفارم ملتے ہیں لیکن کپڑے کا معیار کمتر ہونے کی وجہ سے متعدد پولیس اہلکار اپنے طور پر وردی خریدنے کو ترجیع دیتے ہیں۔

لاہور میں مناواں پولیس ٹرینگ سینٹر پر ہونے والے حملے میں بھی حملہ آوروں نے پولیس کے یونیفارم خریدے تھے جس کے بعد ایسے دکانداروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا تھا جس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوا۔

پولیس کے جن افسران کی ترقیاں ہوتی ہیں بجائے اس کے کہ ادارہ اپنی طرف سے پولیس افسران کو اگلے رینک کے بیج لگائے یہ افسران خود بازار سے یہ بیجز خرید کر لاتے ہیں۔

انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ مسعود شریف کا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس نیٹ ورک کو مذید موثر بنانے کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعدار کار بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حملوں میں کالعدم تنظیمیوں کے اہلکاروں کے علاوہ پاکستان کے دشمن ملکوں کی ایجسنسیاں بھی ملوث ہوسکتی ہیں۔

وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں نے حکومت کو یہ اطلاعات فراہم کی تھیں کہ خودکش حملہ آور سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی یونیفارم پہننے کے علاوہ گاڑیوں پر سرکاری نمبر پلیٹیں لگا کر کارروائی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایمبولینسز کو بھی دہشت گردی کے واقعات میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

وزارت داخلہ نے اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کی پولیس کے اعلی افسران کو ہدایات جاری کی تھیں کہ اینٹی کار لفٹنگ سیل میں ایک خصوصی سیل بنایا جائے جو فوجی افسران کی چوری شدہ گاڑیاں، جن پر فوجی ادارے میں داخلے کے سٹیکرز لگے ہوں کے علاوہ چوری شدہ سرکاری گاڑیاں اور ایمولینسز کی برآمدگی کے لیے کام کرے تاہم اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔

پولیس ذرائع کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی سے 20 سے زائد ایسی گاڑیاں چوری ہوچکی ہیں جو فوجی افسران کے زیر استعمال تھیں اور اُن پر داخلے کے سٹیکرز بھی لگے ہوئے تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے ارادوں کے بارے میں حکومت کو محض اطلاعات فراہم کرنے سے انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کردار ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے علاوہ اُن کی کارروائی پر نظر رکھنا بھی انہی اداروں کا کام ہے اور اس حوالے سے اُن کا قانون نافد کرنے والے اداروں کے ساتھ رابطے میں رہنا بہت ضروری ہے۔

سندھ پولیس کے سابق سربراہ افضل شگری کا کہنا ہے کہ جب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید آلات سے مسلح کرنے کے علاوہ اُن کو دہشت گردی سے نمٹنے کے تربیت نہیں دی جاتی اُس وقت پولیس ایسے واقعات کی روک تھام میں اتنا موثر کردار ادا نہیں کرسکتی۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انٹیلیجنس اور قانون نافد کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو شدت پسندوں سے آگے کا سوچنا ہوگا کہ وہ (شدت پسند) اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کونسے کونسے طریقے اختیار کر سکتے ہیں۔

پولیس افسران کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسندی کی وراداتوں کو روکنے کے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں تاہم اس ضمن میں ہر شخص اور گاڑی کو چیک کرنا ممکن نہیں ہے۔

ریجنل پولیس افسر راولپنڈی اسلم ترین کا کہنا ہے کہ خفیہ اداروں کی اطلاعات کے بعد شہر میں پولیس کو ہائی الرٹ رکھا گیا تھا۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہر اتنا گُنجان آباد ہے کہ ہر ایک پر نظر رکھنا ممکن نہیں تاہم پولیس سماج دشمن عناصر پر نظر رکھنے کے لیے اپنے تئیں کوششیں کرتی ہے۔

وزیر داخلہ رحمان ملک نے چند روز قبل یہ اعلان کیا تھا کہ اسلام آباد سمیت ملک کے اہم شہروں میں ایسے آلات نصب کیے جائیں گے جس سے شہر میں داخل ہونے والی بارود سے بھری ہوئی گاڑی کا سراغ لگانے کے علاوہ خود کش حملہ آوروں کا بھی پتہ چلایا جاسکے گا اس کے علاوہ کلوز سرکٹ کیمرے بھی لگائے جائیں گے لیکن تاحال ایسا نہیں ہوا۔

ان خودکش حملوں کے بعد پولیس کے محکمے میں اب یہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ پولیس افسران اور اہلکار تھانوں میں تعیناتیاں کروانے کے بجائے پولیس لائن وزیر اعظم ہاؤس ، ایوان صدر یا پارلیمنٹ ہاؤس میں اپنی تعیناتیاں کروانے کے لیے سفارشیں ڈھونڈتے ہیں۔

سنیچر کو راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے قریب ہونے والے حملے کے بعد پولیس نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں سرچ آپریشن کرنے کے علاوہ ان علاقوں میں واقع افغان بستیوں میں مقیم افراد کی چھان بین شروع کردی ہے۔

No comments: