Thursday, October 15, 2009

’کالعدم تنظیمیں دوبارہ سرگرم‘

مبصرین کا خیال ہے کہ ایک ہی روز میں ملک کے مختلف حصوں میں شدت پسندوں کے حملے اور اُن کی بدلتی ہوئی حکمتِ عملی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان میں شامل تنظیموں میں اختلافات ختم ہوگئے ہیں اور اُنھوں نے پوری شدت سے اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کردی ہیں۔

سابق سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی نے گفتگو کرتے ہوئے اِس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا یوں ہے کہ شدت پسندپنجاب میں بھی متحرک ہوگئے ہیں۔

اِسے مزاحمتی انداز قرار دیتے ہوئے تسنیم نورانی نے جی ایچ کیو پر حملے کی مثال دی۔ ‘لگتا ہے کہ اِن کی حکمتِ عملی صرف دھماکے کرنے کی نہیں ہے بلکہ یرغمال بنانے کی ہے، کیونکہ غالباً قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جو لوگ پکڑے ہوئے ہیں اُن کی رہائی کے لیے یہ سارے واقعات ہو رہے ہیں۔’

‘آج اُنھوں نے ایک ہی وقت میں لاہور میں تین جگہ کارروائی کی ہے۔ ظاہر ہے یہ منظم کوشش ہے اور اب سرکار کے لیے کوئی راستا نہیں ہے چوکنا رہنے اورمؤثر رہنے کے علاوہ۔’

وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سابق فوجی افسر کرنل انعام وزیر کا کہنا تھا کہ جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرتے ہی صورتِ حال میں بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔

کرنل انعام وزیر کا کہنا تھا کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان بغاوت کا مرکز ہے، جس کا جتنا جلدی قلع قمع کریں گے تب ہی آپ آگے چل سکیں گے۔

‘اب ہم جنوبی پنجاب میں دیکھ رہے ہیں کہ ہر جگہ بڑے شہروں میں بکھرے ہوئے گروپ بنے ہوئے ہیں جو کسی وقت کام دکھا سکتے ہیں۔’ اُن کے بقول قبائلی علاقے کے بعد شہر شہر جا کر کالعدم تنظیموں پر کام کرنا پڑے گا۔

لیکن تسنیم نورانی کا کہنا ہے کہ وزیرستان ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔ اُن کے بقول جنوبی وزیرستان کا علاقہ سوات سے کہیں زیادہ مختلف اور دشوار گزار ہے، اِس لیے کارروائی کرنا اور صاف کردینا اتنا آسان نہیں۔

‘بات یہ ہے کہ امریکی فوج پچھلے پانچ سال سے بیٹھی ہوئی ہے اور وہ بھی یہی کچھ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ ایک دفعہ آپریشن شروع کردیا تو اُس مہینے کے بعد حل ہوجائے گا۔ إِس میں منصوبہ بندی، صبر اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔’

وفاق وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ پنجاب میں شدت پسندوں کی کارروائیاں اِس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ طالبان اپنی پُر تشدد مہم کا رُخ اب شمال مغربی پاکستان سے خصوصاً پنجاب کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

No comments: