Monday, October 19, 2009

’’نیٹو جنگجووں پاکستان میں داخل ہونےسے روک.

امریکی فوج کے اعلیٰ کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیڑیاس نے پیر کو اسلام آباد میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقا ت کی ہے۔ عہدیداروں نے بتایا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم نے امریکی کمانڈر سے ہونے والی بات چیت میں دونوں ممالک کے مابین اعتماد کا فقدا ن ختم کرنے پر زور دیا اور جنرل پیڑیاس کو دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کی قربانیوں سے بھی آگاہ کیا۔

وزیراعظم نے امریکی جنرل سے کہا کہ اب جب کہ پاکستان نے جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف ایک فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کر دیا ہے تو امریکہ کو چاہیئے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی پر اُٹھنے والے اخراجات کی ادائیگیوں اور جد ید جنگی سازوسامان کی فراہمی کے عمل کو تیز کرے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے کہا کہ وزیرستان آپریشن کے دوران نیٹو اور امریکی افواج کی طرف سے اس بات کو بھی یقینی بنا نے کی ضرورت ہے کہ عسکریت پسند افغانستان سے پاکستانی علاقوں میں داخل نہ ہو نے پائیں۔

اس ملاقات میں وزیراعظم گیلانی نے ایک بار پھر بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ پر زور دیا کہ وہ لڑائی سے متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کے کاموں میں پاکستان کی زیادہ سے زیادہ مالی معاونت کرے۔

وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جنرل پیڑیاس نے پاکستانی افواج کی کوششوں اور قربانیوں کو سہراتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ فوجی اخراجات کی ادائیگیاں پاکستان کو جلد ازجلد کر دی جائیں گی۔

پیر کے روز ہی پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ا مریکی سینٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین اور کیری لوگر بل کے ایک خالق جان کیری نے بھی وزیراعظم گیلانی سے علیحدہ ملاقات میں اس امریکی امددای بل کی متنازع شقوں پر پاکستان میں پائی جانے والی تشویش کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ممالک کے طویل المدتی تعلقات کو فروغ ملے گا۔

جان کیر ی نے پاکستان کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف سے بھی ملاقات کی جو امریکی امداد کے بل پر کڑی تنقید کر تے ہوئے اسے قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ قرار دے چکے ہیں۔

ڈیوڈ پیٹریاس اور جان کیری نے پاکستانی قائدین سے ایک ایسے وقت یہ بات چیت کی ہے جب ایک طرف فوج ملک میں طالبان اور القائدہ جنگجوؤں کے مضبوط گڑھ جنوبی وزیرستان میں بھرپور آپریشن میں مصروف ہے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کی حکومت اور امریکی حکام کی طرف سے یقین دہانیوں کے باوجود حزب اختلاف کی جماعتیں اورغیر جانبدار حلقے موجودہ شکل میں کیری لوگر بل کو قبول نہ کرنے کے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

وزیراعظم گیلانی کی حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کے لیے آئندہ پانچ سالوں کے دوران ساڑھے سات ارب ڈالرز کی غیر فوجی امداد کا یہ امریکی بل کسی بھی طرح ملک کی خود مختاری کے خلاف نہیں ہے اوراس کی بعض شقوں پر پائے جانے والے خدشات امریکہ کی طرف سے کانگریس میں پیش کردہ وضاحتی رپورٹ کے بعد ختم ہو جانے چاہیئں۔

مبصرین ان اعلی امریکی عہدیداروں کی پاکستان کی سول اور عسکری قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں کو دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ بین الاقوامی امُور کے ماہراورتجزیہ نگار پروفیسر رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی عہدیداروں کے اس وقت دورے کا مقصد کیری لوگر بل پرپائی جانے والی تشویش کو دور کرنا ہے ۔

رسول بخش رئیس نے کہا کہ ایک ایسے وقت جب پاکستانی فوج جنوبی وزیرستان میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف بھرپور کارروائی میں مصروف ہے اعلی امریکی عہدیداروں کو پاکستان نہیں آنا چاہیئے تھا کیوں کہ اُن کے بقول حزب اختلاف اور امریکی امداد کے بل کی مخالف دینی جماعتوں کو اس سے حکومت پر مزید تنقید کرنے کا موقع ملے گا جو پہلے ہی وزیرستان آپریشن کو امریکی دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں۔

دریں اثنا جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فو ج اور تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کے درمیان پیر کے روز بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم فوری طور پر اس لڑائی میں ہونے والے جانی نقصان کی مصدقہ اطلاعات نہیں ملی ہیں کیوں کہ ان علاقوں تک صحافیوں کو رسائی حاصل نہیں ہے۔

لڑائی کے باعث سینکڑوں خاندان جنوبی وزیرستان سے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کی طرف جارہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بے دخل خاندانوں کو محفوظ علاقوں تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ جنوبی وزیرستان سے دیگر علاقوں تک پہنچنے کے لیے ذرائع آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہیں اور بیشتر خاندان جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں پیدل ہی کئی کلومیٹر کا سفر طے کر کے ڈی آئی خان اور ٹانک آرہے ہیں جب کہ راستے میں ان کی انتہائی سخت چیکنگ بھی کی جارہی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی لگ بھگ ایک لاکھ افراد محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کر چکے تھے اور لڑائی شروع ہونے کے بعد بے دخل ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

اُدھر مقامی حکام کے مطابق مہمند ایجنسی کے علاقوں امبار اور لکٹراؤ میں پیر کو جیٹ طیاروں سے عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور اس کارروائی میں متعدد جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے ۔

No comments: