Thursday, October 15, 2009

خودمختاری کا سوال

قومی اسمبلی میں بحث کے دوران وہ چیخ و پکار شروع ہوئی کہ ایوانِ زیریں میں ’غیرت اور خود مختاری‘ کے لفظوں کی گونج اب تک سنائی دے رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کی خود مختاری پر پہلے کبھی آنچ آئی ہی نہیں تھی۔

معلوم نہیں کہ کیری لوگر بِل پاکستان کے لیے کتنا اچھا یا کتنا بُرا ہے۔لیکن جو بات معلوم ہے وہ یہ کہ اس بِل کی کچھ شِقوں کو سن کر اکثریت بِلبلا اٹھی ہے۔ کہیں سے آواز آتی ہے کہ یہ بِل غلامی کی دستاویز ہے۔ کہیں سے صدا اٹھتی ہے کہ امریکہ ’صاحب‘ نے پاکستان کی بہت تھوڑی قیمت لگائی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ بِل پاکستانیوں کی غیرت کے لیے ایک للکار ہے اور کوئی کہتا ہے کہ یہ بِل پاکستان کی خود مختاری پہ وار ہے۔

یہ بِل آج کےامریکی نائب صدر اور کل کے سینیٹر جوزف بائڈن کے دور میں پیدائش کے مراحل سے گزرا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سال پرانے بِل کے اس مسودے میں کیا لکھا تھا کچھ عرصہ پہلے تک کسی کو معلوم نہیں تھا۔ایک اور عجیب بات یہ کہ جب یہ بِل کانگریس سے منظوری کے مراحل سے گزر رہا تھا لگ بھگ اسی دوران آئی ایس آئی کے سربراہ بھی امریکہ میں تھے لیکن کور کمانڈروں اور کچھ دانشوروں کو ’ملکی خود مختاری کے سودے اورغیرت کا حال‘ تب پڑا جب یہ بلِ پاس ہوگیا۔

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے آدھے ہم نام اور پورے ہم منصب جنرل پرویز کیانی نے فی الفور اپنے کمانڈروں کو جمع کیا اور پریس ریلیز کے ذریعے انتظار کی اذیت اٹھانے والے کچھ سیاست دانوں اور کچھ دانشوروں کو پیغام دے دیا کہ فوج کو اس بِل پر تشویش ہے۔

لوہا پہلے ہی سے گرم تھا مزید کیا ہوتا۔ وہ چیخ و پکار شروع ہوئی کہ قومی اسمبلی کے ایوانِ زیریں میں ’غیرت اور خود مختاری‘ کے لفظوں کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کی خود مختاری پر پہلے کبھی آنچ آئی ہی نہیں تھی۔

امریکہ پاکستان کے علاقے میں کارروائی کے لیے پاکستان ہی سے اڈے مانگتا ہے۔ پھر ڈرون جہازوں کی ڈراؤنی اور نہ ختم ہونے والی پروازیں شروع ہوتی ہیں۔ مبینہ گناہ گاروں کے ساتھ بے اختیار اور بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں۔ لیکن خود مختاری پر کوئی فرق نہیں آتا۔

لیکن چلیے کچھ سال پیچھے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ فوج کے سپریم کمانڈر اور کور کمانڈروں کے سامنے ماضی میں قومی خود مختاری کا سوال تو نہیں اٹھا تھا۔ لے دے کے حالیہ تاریخ میں جو کچھ ملتا ہے وہ یوں ہے۔

فوج کے سپریم کمانڈر جنرل ضیاالحق کا دور ہے۔ امریکہ کے کہنے پر پاکستان کی سر زمین سے روسی ’کافروں‘ کے خلاف ’جہاد‘ کی تدبیریں ہو رہی ہیں بلکہ ’جہاد‘ ہو رہا ہے۔ مگر پاکستان خود مختاری پر کوئی آنچ نہیں آتی۔

جنرل پرویز کیانی کے پیش رو جنرل ریٹائرڈ مشرف کارگل پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ انڈیا جوابی کارروائی کرتا ہے۔ مسئلہ عالمی سطح پر اٹھتا ہے۔ نواز شریف جن کی جماعت بھی کیری لوگر بِِل کی بڑی مخالف ہے، بِل کلنٹن سے ملنے جاتے ہیں (مشرف اور کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کے ارکان انہیں الوداع کہنے ائرپورٹ جاتے ہیں)۔جب نواز شریف کا جہاز اسلام آباد اُترتا ہے تو کارگل کی چوٹیوں کے غیر فوجی محافظ بھی پہاڑوں سے نیچے اتر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان کی خود مختاری پر کوئی آنچ نہیں آتی۔

پاکستانی شہنشاہ پرویز مشرف نواز شریف کو مسندِ اقتدار سے ہٹا چکے ہیں۔ انہیں عدلیہ سے سزا سنائی جا چکی ہے مگر سعودی بادشاہ جنرل ریٹائرڈ مشرف سے بات کرتے ہیں اور ایک معاہدہ طے ہوتا ہے۔ لبنان بھی ضمانت دینے والوں میں شامل ہے۔نواز شریف جدہ سمگل کر دیے جاتے ہیں۔خود مختاری کا سوال نہیں اٹھتا۔ پھر ان کی سیاست میں واپسی بھی بادشاہ کے فرمان سے ہوتی ہے مگر پاکستان کی خود مختاری کو کچھ نہیں ہوتا۔

سیاست کی بازی پلٹتی ہے اور پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کی بات ہوتی ہے۔ مطالبہ ہوتا ہے کہ مشرف کی گردن چاہیے۔ حرمین کے خادم مگر اصل میں بادشاہ بیچ میں پڑتے ہیں۔ شاہی دربار لگتا ہے اور سابق پاکستانی صدر اور فوج کے سابق کمانڈر ان چیف حاضر ہوتے ہیں۔ سعودی فرمانروا پرویز مشرف کو یقین دہانیاں کراتے ہیں۔ پھر نواز شریف کے عمرے کا وقت ہو جاتا ہے وہ بھی خادمِ حرمین کے نیاز حاصل کرتے ہیں۔ سعودی فرمانروا پھر یقین دہانیاں حاصل کرتے ہیں اور پاکستان کے سابق صدر کی جان بخشی ہو جاتی ہے۔فیصلے پاکستان کے بارے میں ہیں لیکن ہو رہے ہیں سعودی عرب میں مگر ملکی خود مختاری پر کوئی حرف نہیں آتا وہ جوں کی توں رہتی ہے۔

امریکہ پر حملے ہوتے ہیں اور جوابی کارروائی کے لیے پاکستان سے طرح طرح کی مدد چاہیے۔ ایک رات جنرل کولن پاول امریکہ سے فون کرتے ہیں اور جنرل پرویز کیانی کے ہم نام سے کچھ ارشاد فرماتے ہیں۔ سپریم کمانڈر اور کور کمانڈروں میں عہد و پیماں ہوتے ہیں اور امریکہ کا ساتھ دینے کا عزم کیا جاتا ہے۔ مگر ملک کی خود مختاری پر کوئی آنچ نہیں آتی۔

امریکہ پاکستان کے علاقے میں کارروائی کے لیے پاکستان ہی سے اڈے مانگتا ہے۔ پھر ڈرون جہازوں کی ڈراؤنی اور نہ ختم ہونے والی پروازیں شروع ہوتی ہیں۔ مبینہ گناہ گاروں کے ساتھ بے اختیار اور بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں۔ لیکن خود مختاری پر کوئی فرق نہیں آتا۔

جنرل پرویز کیانی کے پیشرو پرویز مشرف سینکڑوں مبینہ دہشت گردوں کو پکڑ پکڑ کے گوانتانامو میں تفتیش کے لیے ’آقا‘ امریکہ کے حوالے کرتے ہیں۔ لیکن خود مختاری پر کوئی انگلی نہیں اٹھتی۔

اب کیری لوگر بِل کی وجہ سے فوج کے ماتھے پر بل پڑا ہے تو ملکی خود مختاری پر ضربِ کاری لگ گئی لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے جواں مرد حب الوطنوں کی امریکی ’آقاؤں‘ اور سعودی شاہوں سے ماضی کی تمام وفاداریاں کیا کہلائیں گی؟

No comments: