Friday, October 16, 2009

این آر او منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں

’این آر او‘ کے تحت متحدہ قومی موومنٹ کے بیسیوں کارکنوں کے خلاف درجنوں مقدمات بھی واپس کیے گئے تھے جبکہ کئی بیوروکریٹس بھی اس سے مستفید ہوئے تھے۔

پاکستان کی حکومت نے جمعہ کو متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس ’این آر او‘ کو قانونی تحفظ دینے کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پیش کردیا ہے۔حزب مخالف کے کچھ اراکین نے ’این آر او‘ کو پارلیمان میں پیش کرنے کی مخالفت کی اور احتجاج کرتے ہوئے شیم شیم کے نعرے لگائے۔

واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے ’این آر او‘ جاری کیا تھا جس کے تحت سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور موجودہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف گزشتہ آٹھ برسوں سے مختلف عدالتوں میں زیر التویٰ مقدمات ختم کیے گئے تھے۔’این آر او‘ کے تحت متحدہ قومی موومنٹ کے بیسیوں کارکنوں کے خلاف درجنوں مقدمات بھی واپس کیے گئے تھے جبکہ کئی بیوروکریٹس بھی اس سے مستفید ہوئے تھے۔

جمعہ کو جب وزیر مملکت برائے قانون و انصاف محمد افضل سندھو نے ’این آر او‘ منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا تو حزب مخالف کے بعض اراکین نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔

جبکہ ایوان بالا سینیٹ میں جب اُسے پیش کیا گیا تو قائد حزب مخالف وسیم سجاد نے کہا کہ انہوں نے اس کے خلاف ایک تحریک جمع کرا رکھی ہے جس پر غور کیا جائے۔

پارلیمانی امور کے وزیر ڈاکٹر بابر اعوان نے گزشتہ روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’این آر او‘ کا پارلیمان میں بھرپور دفاع کریں گے۔ ان کے مطابق وہ پاکستان میں انیس سو اٹھاون سے جاری ہونے والے ’این آر اوز‘ کی تاریخ پیش کریں گے کہ کس کس نے اس طرح کے قوانین سے فوائد حاصل کیے ہیں۔

یاد رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر سنہ دو ہزار سات کو آئین معطل کرکے ایمرجنسی لگانے سمیت ان کے تمام اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ عدالت نے ’این آر او‘ سمیت پرویز مشرف کے جاری کردہ سینتیس آرڈیننسز جو خارج المدت ہوچکے تھے، انہیں تیس نومبر تک پارلیمان سے منظور کرانے کی مہلت دی تھی۔

حکومت نے چھبیس آرڈیننس پارلیمان میں پیش کرچکی اور جمعہ کو انتہائی متنازعہ آرڈیننس ’این آر او‘ بھی پیش کردیا ہے۔ حزب مخالف کی بیشتر جماعتیں اس قانون کی منظوری کے خلاف ہیں۔ جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہیں اس قانون کی منظوری کے لیے مطلوبہ تعداد سے زیادہ اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

No comments: