Saturday, October 17, 2009

جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی مشکلات

قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں ہفتے کے روز سے شروع کیے جانے والے زمینی فوجی آپریشن کےبارے میں عسکری اُمور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں موجود طالبان شدت پسندوں کی طرف سے فوج کو سخت مزاحمت کے سامنے کا اندیشہ ہے۔

قبائلی اُمور کے ماہر اور تجزیہ نگار بریگیڈئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے کہ مالاکنڈ ڈویژن بشمول وادی سوات کی نسبت جنوبی وزیرستان میں طالبان جنگجو نہ صرف زیادہ منظم اور طاقت ور ہیں بلکہ یہ علاقہ بھی خاصا دشوار گزار ہے اور اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کو جنوبی وزیرستان میں ازبک جنگجوؤں کی مدد بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے اس علاقے میں ہونے والا فوجی آپریشن اُن کے بقول قدرے مشکل ہوگا۔

محمود شاہ کے بقول جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے حکومت وقت اور فوج کے پاس ماسوائے فوجی آپریشن کے کوئی اورراستہ نہیں تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ حکومت نے چند ماہ قبل جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود طالبان کے زیر تسلط اس علاقے میں بھرپور زمینی کارروائی نہیں کی گئی، لیکن اُن کے بقول ملک میں حالیہ دنوں میں پہ در پہ ہونے والے دہشت گرانہ حملوں کے بعد یہ آپریشن ناگزیر ہو گیا تھا۔

اُدھر جنوبی وزیرستان میں گذشتہ مہینوں کے دوران طالبان جنگجوؤں کے مشتبہ ٹھکانوں پر جیٹ طیاروں کی بمباری اور علاقے میں کشید گی کے باعث لگ بھگ 80 ہزار افراد پہلے ہی علاقہ چھوڑ کر ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے اضلاع میں منتقل ہو گئے تھے اور اقوام متحدہ کی ترجمان عشرت رضوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حالیہ دنوں کے دوران جنوبی وزیرستان سے بے دخل ہونے والے خاندانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اوراُن کے بقول گذشتہ تین دنوں کے دوران دو ہزار سے زائد خاندانوں نے جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کی ہے ۔

جنوبی وزیرستان میں زمینی فوجی کارروائی کا آغازجمعہ کی شب ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ایک مشترکہ اجلاس کے بعد کیا گیا ہے ۔ خیال رہے کہ شدت پسندوں کی طرف سے حالیہ دنوں میں ملک میں خودکش حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور پچھلے دو ہفتوں میں ان حملوں میں 170 افراد مارے جا چکے ہیں اور پاکستانی حکام کا ماننا ہے کہ ملک میں ہونے والے 80 فیصد دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی جنوبی وزیرستان میں کی جاتی ہے۔

شمالی وزیرستان سے ہزاروں لوگوں کی نقل مکانی

صوبہٴ سرحد میں اُن بے گھر افراد کا ریلا آیا ہوا ہے جو سرکاری فوجیوں اور طالبان جنگ جوؤں کے درمیان لڑائی سے فرار ہوکر وہاں پہنچے ہیں۔ اِس سے پہلے اِسی سال کے اوائل میں وادیِ سوات سے تقریباً 20لاکھ افراد دربدر ہوگئے تھے۔

اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان آندرے مہیچک نے کہا ہے کہ اُن کے ادارے کو وزیرستان سےسوات کے مقابلے پر کم تعداد میں لوگوں کے آنے کی توقع ہے۔ تاہم اُنھوں نے کہا کہ ایک بڑی تعداد محفوظ علاقوں کی طرف جارہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ حالیہ دِنوں میں مقامی حکام نے نئے آنے والوں کی رجسٹریشن شروع کی ہے اور گذشتہ تین روز میں منتقل ہونے والے اندازاً دو ہزارخاندانوں میں سے 800 رجسٹر ہوچکے ہیں۔

اگرچہ جنوبی وزیرستان سے اِن افراد کی نقل مکانی موسم کی بنیاد پر ہوسکتی ہے، تاہم بیشتر خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ ممکنہ بمباری کے خدشے سے وہاں سے نکل آئے ہیں۔ اگر بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی شروع ہوگئی تو بے گھر افراد کی تعداد میں نمایاں اضافے کا امکان ہے۔

ترجمان نے کہا کہ پناہ گزینوں کا ادارہ اپنے پارٹنرز کے ساتھ مل کر پلاسٹک کی چادریں، سونے کے لیے چٹائیاں اور کھانے پینے کا سامان اِن افراد میں تقسیم کر رہا ہے۔

اِسی اثنا میں عالمی ادارہٴ صحت کے ترجمان پال گاروڈ نے کہا ہے کہ اِس علاقے میں طبی سازو سامان کی کمی ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والی صرف 42 فی صد تنصیبات تک پانی کی رسد پہنچ رہی ہے۔ میڈیکل اسٹاف کی، خاص طور پرخواتین پر مشتمل عملے کی تعداد مختصر ہے۔

اقوامِ متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خراب ہوتی ہوئی صورتِ حال ملک کے اندر اُن کی انسانی ہمدردی سے متعلق کارروائیوں میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔

پناہ گزینوں کی رجسٹریشن

ہزاروں افراد شورش زدہ علاقوں سے نقال مکانی کر کے آئے ہیں

اقوام متحدہ کے ہائي کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ پاکستان کے شورش زدہ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے آپریشن کے پیش نظر نقل مکانی کی تازہ لہر میں ہزاروں افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

عالمی ادارہ برائے مہاجرین نے آنیوالے دنوں میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن ہونے کی صورت میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں ممکنہ اضافے کے خدشہ کا اظہار کیا ہے ۔

نیویارک میں اقوم متحدہ کے پناہ گزینوں کے متعلق ادارے یو این ایچ سی آر کے لیے سیکرٹری جنرل بانکی مون کی ترجمان مشل مونتاس نے میڈیا کو بریفنگ کے دوران بتایا کہ گذشتہ ماہ ستمبر تک جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کرکے آنیوالے اسی ہزار افراد نے صوبہ سرحد میں ڈیرہ ا سماعیل خان اور ٹانک اضلاع کے مقامی حکام کے پاس اپنے نام درج کروائے ہیں۔

مشل مونتاس کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں جنوبی وزیر ستان سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی رجسٹریشن مقامی انتظامیہ نے شروع کر دی ہے اور گذشتہ تین دنوں میں کوئي دو ہزار خاندان علاقے سے جا چکے ہیں جن میں سے آٹھ سو افراد نے خود کو مقامی انتظامیہ کے پاس رجسٹر کروایا ہے۔

وزیرستان سے نقل مکانی

خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی

اقوامِ متحدہ کی ترجمان کہا کہ اگرچہ جنوبی وزیرستان سے کچھ لوگ موسم کی وجہ سے بھی گئے ہیں لیکن نقل مکانی کرکے آنیوالے زیادہ تر افراد کا کہنا ہے کہ وہ بمباری کے خوف سے اپنے گھر چھوڑ کر آئے ہیں۔

مشل مونتاس نے کہا ’اگر پوری طرح فوجی آپریشن شروع کیا گیا تو نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔‘

یو این ایچ سی آر علاقے میں غیر سرکاری تنظیموں کے اشتراک سے متاثرہ افراد میں امدای سامان کی فراہمی کا بندوبست کر رہا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ادارے کے پاس امدادی سامان کا ذخیرہ موجود ہے لیکن اصل مسئلہ سکیورٹی اور امدادی کارکنوں کی لوگوں تک پہنچ کا ہے۔

مشل مونتاس نے کہا کہ ’ان کا ادارہ جنوبی وزیرستان سے اس پیمانے پر نقل مکانی کی توقع نہیں کر رہا جس پیمانے پر رواں سال کے شروع میں شورش زدہ صوبہ سرحد میں سوات، دیر، بنیر اور شانگلہ سے ہوئي تھی، جب کہ بیس لاکھ لوگوں نے ہجرت کی تھی۔ لیکن جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے امدادی کام کرنے والوں کی مشکلات اب دگنی ہوجائيں گی۔‘

ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقوام متحدہ کے دفاتر پر حملوں کی وجہ سے انکے کام میں رکاوٹیں حائل ہیں لیکن وہ سیکورٹی کی صورتحال اور امدادی کاموں میں توازن رکھتے ہوئے متاثر افراد کی مدد جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

جنوبی وزیرستا ن میں زمینی فوج کی پیش قدمی

یہ علاقے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مظبوط گڑھ مانے جاتے ہیں

جنوبی وزیرستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے پاکستان کی زمینی افواج نے ہفتہ کی صبح وانا، رزمک اورجنڈولہ کی جانب سے ان علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے جہاں محسود قبائل آباد ہیں۔ ان علاقوں میں مکین ، لدھا ، سرواکئی اور کانی گرام شامل ہیں جو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مظبوط گڑھ مانے جاتے ہیں۔ فوج کی پیش قدمی سے پہلے حکام نے اطلاعات کے مطابق ڈیر اسماعیل خان میں موبائل فون کی سروس بھی بند کردی گئی ہے۔

اس کارروائی کا آغازجمعہ کی شب ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ایک مشترکہ اجلاس کے بعد کیا گیا ہے جس میں فوج کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی نے شرکاء کو جنوبی وزیرستان اور مجموعی سیکورٹی کی صورت حال سے آگاہ کیا۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں سیاسی قائدین نے انتہا پسندی کے خاتمے اور ریاست کی عملداری بحال کرنے کے لیے فوج کی کارروائیوں کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان میں کارروائی ایک ایسے وقت شروع کی گئی ہے جب شدت پسندوں کی طرف سے ملک میں خودکش حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور پچھلے دو ہفتوں میں ان حملوں میں 170 افراد مارے جا چکے ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت نے تقریباً چار ماہ قبل سیکورٹی فورسز کو جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا لیکن اس علاقے میں زمینی فوج کی پیش قدمی سے قبل تک ان علاقوں میں ”راہ نجات “ کے نام سے جاری آپریشن کے تحت جیٹ طیاروں سے طالبان جنگجوؤں کے مشتبہ ٹھکانوں کونشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں بڑے زمینی آپریشن کے آغاز میں تاخیر کی ایک وجہ امریکی امدا کے کیری لوگر بل کی بعض شقوں پر فوجی قیادت کے تحفظات تھے۔ اگرچہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعہ کے روز قومی اسمبلی کیری لوگر بل پر جاری بحث کے دوران ایوان کو بتایا تھا کہ امریکی حکام نے پاکستان کے مطالبے پراس بل کے حوالے ملک میں پائے جانے والے خدشات کو دور کرنے کے لیے ایک وضاحتی دستاویز جاری کر دی ہے۔ لیکن عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج کیری لوگر بل پر امریکہ حکام کے وضاحتی بیان کا جائزہ لی رہی ہے اور اس کے بغور مطالعے کے بعد فوجی قیادت اس پر اپنا موقف بیان کرے گی۔

فوجی عہدیداروں کے مطابق 2004 ء سے اب تک وزیرستان میں امن کے خواہاں تقریباً چھ سو بااثر قبائلی عمائدین کو طالبان ہلاک کر چکے ہیں۔

اعلی فوجی حکام نے بتایا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں زمینی کارروائی میں سکیورٹی فورسز کے تین ڈویژن حصہ لے رہے ہیں جن میں فرنٹیئر کور بھی شامل ہے اور اس کارروائی میں سینکڑوں گوریلا فوجی بھی حصہ لے رہے ہیں۔ فوجی دستوں کا مشن لگ بھگ دس ہزار شدت پسند جنگجووں کا خاتمہ ہے۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کے مطابق محسود قبائل والے علاقوں کی سرحدیں افغانستان سے نہیں ملتی اورفوج نے ایک طویل عرصے سے انھیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔

فوجی ذرائع کا کہنا ہے جنوبی وزیرستان میں زمینی کارروائی ایک مشکل مشن ہوگا کیوں کہ اُن کے بقول یہ علاقہ ایک ”اندھا کنواں“ ہے اور کامیاب فوجی کارروائی کے لیے انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس وقت علاقے میں طالبان عسکریت پسندوں کی اصل طاقت وسطی ایشیائی ریاست ازبکستان سے تعلق رکھنے والی” اسلامک موومنٹ آف ازبکستان“ کے جنگجو بن چکے ہیں جن کی تعداد لگ بھگ ایک ہزار ہے ۔

فوجی کمانڈروں کا کہناہے القائدہ کے نظریات کافروغ کرنے والے یہ ازبک وزیرستان میں اپنی بقا ء کی جنگ لڑر ہے ہیں لہذاوہ اپنے بچاؤ کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور فوج کی پیش قدمی کے دوران شدت پسندوں کی طرف سے سخت مزاحمت اور حملوں کا امکان ہے لیکن فوج اس کے لیے تیار ہے۔ البتہ ان کا ماننا ہے کہ رد عمل کے طور پر ملک کی شہری آبادی والے علاقوں میں عسکریت پسندوں کی دہشت گردانہ کارروائیاں اس فوجی آپریشن کی دکھتی رگ ہے

No comments: