Saturday, October 17, 2009

حکومت۔فوج تعلقات ابتری کی طرف مائل

جنرک کیانی، زرداری

فوج اور زرداری حکومت کے درمیان تعلقات ابتری کی طرف مائل ہیں

پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کی نئی لہر کے ساتھ ہی فوج اور سویلین حکومت کے تعلقات میں کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ فوج کی جانب سے ان یقین دہانیوں کے باوجود کہ وہ اب سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی، دونوں کے تعلقات ابتری کی طرف مائل ہیں۔

کشیدگی کی حالیہ لہر فوج کی نیت کے بارے میں چند قیاس آرائیوں کے بعد سامنے آئی ہے۔ حال ہی میں فوج نے حکومت کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اس امریکی بل پر اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے جس میں امریکہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک سے طالبان اور القاعدہ کے خاتمے کے بدلے میں پاکستان کو کروڑوں ڈالر کی امداد فراہم کرے گا۔

پانچ اکتوبر کے بعد سے اب تک پاکستان میں طالبان کی جانب سے 9 حملے ہوچکے ہیں جس میں فوج کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ بھی شامل ہے جس میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ لاہور میں ایک ہی دن میں تین حملے کیے گئے۔

ان حملوں میں اب تک 150 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔

ان حملوں کے باوجود آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستانی حکومت اور امریکی انتظامیہ کو اس بل پر چیلنج کردیا ہے۔ اس بل کے امریکی کانگریس میں منظور کیے جانے پر ایک سال کا وقت صرف ہوا ہے۔

پاکستانا فوج کے سربراہ نے ستمبر کے اواخر میں کابل کے دورے کے دوران پہلی بار اس بل کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور امریکی کمانڈر جنرل سٹینلے میکرسٹل سے کہا تھا کہ یہ بل پاکستانی فوج کے لیے توہین آمیز ہے۔

سوات

بے گھر ہونے والے دو ملین افراد کی امداد میں بھی فوج پیش پیش تھی

7 اکتوبر کو جنرل کیانی نے فوج کے کور کمانڈروں کے ساتھ ایک اجلاس میں موقف اختیار کیا تھا کہ اس بل سے پاکستان کی فوجی سلامتی متاثر ہوگی۔

اسی دوران فوج نے تعلقات عامہ استوار کرنے کا ایک دور شروع کیا تاکہ اس بل کے خلاف زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت حاصل ہوسکے۔

جنرل کیانی نے خفیہ طور پر حزب اختلاف کے رہنما شہباز شریف سے بھی ملاقات کی۔

صدر آصف زرداری اس بل سے متعلق پارلیمان اور میڈیا کی مخالفت پر حیران رہ گئے جنہوں نے حکومت پر غدار ہونے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ حکومت امریکی انتظامیہ کے ہاتھوں بِک چکی ہے۔

امریکی بل کے مطابق اگلے پانچ سال کے دوران پاکستان کی سویلین حکومت کو ترقی کی مد میں اڑھائی ارب ڈالر کی امداد دی جائے گی جبکہ فوج کو ایک سال میں ایک ارب ڈالر سے زائد کا علیحدہ امدادی پیکج دیا جائے گا۔

پاکستان اور امریکی تعلقات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کی سویلین حکومت کو اتنی خطیر رقم کی امداد دی جائے گی۔ اس سے قبل امریکی امداد فوجی حکومتوں کے دور میں دی جاتی رہی ہے۔

تاہم امداد کے بدلے میں فوج پر کڑی شرائط عائد کی گئی ہیں۔ بل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سویلین حکومت قائم رہے گی اور فوج اور دفاعی بجٹ پر سویلین حکومت کا کنٹرول رہے گا۔ جبکہ حکومت دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گی۔

تاہم بل میں ایک شق یہ بھی ہے کہ امریکی صدر کے پاس پاکستان کے لیے امداد جاری رکھنے کا اختیار رہے گی چاہے اس بل کی شرائط پوری ہوں یا نہ ہوں۔

جان کیری، برمن

جان کیری نے گزشتہ دو سال کے دوران پاکستان کے کئی دورے کیے

بل کی یہ حتمی شکل بے شمار مرتبہ جوڑ توڑ کے بعد سامنے آئی ہے جس دوران پاکستانی حکومت، وزارت خارجہ اور فوج سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ ابتدا میں پاکستانی حکام کو اس بل میں استعمال کی جانے والی زبان پر اعتراضات تھے، خصوصاً پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ہاورڈ برمن نے ذاتی طور پر جنرل کیانی کو اس بل کے بارے میں بریف کیا تھا جبکہ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ جان کیری نے گزشتہ دو سال کے دوران پاکستان کے کئی دورے کیے اور فوجی جرنیلوں اور آئی ایس آئی کے حکام سے اس بارے میں ملاقاتیں بھی کیں۔

اسی بل کے ذریعے یورپ اور عرب ممالک سے پاکستان کے لیے امداد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ کئی یورپی اور عرب ممالک اس انتظار میں ہیں کہ امریکہ اپنی امداد کا عہد پورا کرے تو وہ بھی 5 ارب ڈالر کی امداد پاکستان کے لیے جاری کردیں۔

پاکستان موجودہ معاشی بحران کے درمیان طالبان سے برسر پیکار ہے۔ ملک میں توانائی کی کمی اور بے روز گاری کا دور دورہ ہے۔حکومت دیوالیہ ہوچکی ہے اور آئی ایم ایف کی 11 ارب ڈالر کی امداد پر گزارہ کررہی ہے۔

پاکستانی فوج کے ردعمل پر امریکی قانون ساز حلقے مشتعل ہیں۔ ہاورڈ برمن نے کہا ہے ’پاکستان میں ماضی میں اربوں ڈالر کی امداد نہ جانے کہاں جاتی رہی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اب ہم پاکستان کو یہ بھی بتائیں کہ اس پیسے کو کیسے اور کہاں کہاں خرچ کرنا ہے‘۔

اوبامہ

اوباما انتظامیہ فوج کو ناخوش کرنے کا رسک نہیں لے سکتی۔

14 اکتوبر کو جان کیری اورہاروڈ برمن نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا تھا کہ امریکہ کو پاکستان کی خودمختاری میں مداخلت کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ اب پیپلز پارٹی کی حکومت اس بل کی حمایت اور اس کے دفاع میں تنہا رہ گئی ہے۔

پی پی پی حکومت کا خیال ہے کہ فوج کے اس اقدام کا مقصد صدر زرداری کی حکومت کا خاتمہ ہے۔

دوسری جانب صدر زرداری کی حکومت نے ایسا کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا ہے جس سے اس کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو۔ حال ہی میں وادی سوات میں کیے گئے فوجی آپریشن کے بعد بے گھر ہونے والے دو ملین افراد کی امداد میں بھی سویلین حکومت کے بجائے فوج پیش پیش تھی۔

فوج جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف زمینی آپریشن شروع کرنے کا عہد کررہی ہے۔ ان حالات میں اوباما انتظامیہ فوج کو ناخوش کرنے کا رسک نہیں لے سکتی۔

تاہم فوج اور سویلین حکومت کے تعلقات میں بظاہر تو بہتری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی اور یہی کشیدگی امریکی انتظامیہ کے افغانستان اور پاکستان کے لیے حکمت عملی کا فیصلہ کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

No comments: