Sunday, October 11, 2009

یہ کیسے ہوا

پاکستانی حکام اس حملے کو سکیورٹی ’بریچ‘ ماننے سے انکار کر رہے ہیں

اگرچہ فوجی ہیڈکواٹر پر حملے کی مکمل تصویر سامنے آنا ابھی باقی ہے لیکن بعض ذرائع سے ملنے والی ابتدائی اطلاعات کے مطابق مسلح حملہ آوروں نے تین اطراف سے جی ایچ کیو پر حملے کی کوشش کی تھی۔ تاہم وہ داخل محض دو اطراف سے ہوئے۔

عینی شاہدین کے مطابق حملے کا آغاز فوجی نمبر پلیٹ والی سفید سوزکی کیری نے گیٹ نمبر ایک سے کیا۔ وہاں تعینات فوجیوں کی مدد کے لیے اس سے اگلی چیک پوسٹ پر قائم سیکورٹی اہلکار اس جانب آئے جس کا فائدہ اٹھا کر مسلح حملہ آوروں کا ایک دوسرا گروپ بظاہر آئی ایس پی آر کے دفتر کے راستے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

دوسرا گروپ دوسری چوکی پر فوجیوں کی عدم موجودگی یا کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سکیورٹی عمارت تک پہنچ گیا جہاں اس نے اٹھائیس افراد کو جن میں اکثریت سویلین ملازمین کی بتائی جا رہی ہے یرغمال بنا لیا۔

عنی شاہدین کے مطابق حملے میں ہلاک ہونے والے بریگیڈئر انوار الحق اور لیفٹینٹ کرنل وسیم کو جان بوجھ کر نشانہ نہیں بنایا گیا تھا بلکہ وہ ’غلط وقت پر غلط جگہ‘ موجودگی کا واقعہ تھا۔

لیکن اطلاعات ہیں کہ حملہ آوروں کے ایک اور گروپ نے عقبی گیٹ نمبر تین پر بھی دستی بموں یا مارٹروں سے حملہ کیا لیکن اس حملے کا بظاہر مقصد اندر داخل ہونا نہیں بلکہ محض سکیورٹی اداروں کی توجہ بانٹنا تھا۔

ذرائع کے مطابق جی ایچ کیو میں حملے کے وقت ایک اہم اجلاس بھی جاری تھا۔ کل وزیر اعلیٰ سرحد امید حیدر خان ہوتی نے بھی فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کی تھی۔

عسکری ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ حملہ کسی عام شدت پسند گروپ کا نہیں ہوسکتا بلکہ بہت ہی زیادہ تربیت اور خفیہ معلومات اکٹھی کرنے والے گروپ کی کارروائی ہے۔ مجموعی طور پر اس حملے میں اب تک آٹھ حملہ آوروں کے ملوث ہونے کی ہی تصدیق ہوسکی ہے۔

وزیر داخلہ رحمان ملک کا اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ جس قسم کا اسلحہ اور تربیت ان حملہ آوروں کو حاصل تھی وہ مقامی نہیں ہوسکتی اور اس کی پشت پر غیرملکی عناصر بھی ہوسکتے ہیں۔ اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان شدت پسندوں کو تمام اسلحہ افغانستان سے مل رہا ہے جس پر انہوں نے کابل سے مناسب کارروائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

تفتیشی ذرائع کا کہنا تھا کہ راولپنڈی کے مضافات میں جس مکان سے ان حملہ آوروں کا تعلق ثابت ہوا ہے وہ وہاں گزشتہ دو ماہ سے اس حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ماہرین اسے لاہور میں منواں پولیس اکیڈمی اور سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملوں میں ملوث شدت پسندوں کی طرز کی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔

پاکستانی حکام تاہم اس حملے کو سکیورٹی ’بریچ‘ ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تفصیلی طور پر پلان کئے گئے منصوبے کو اس سکیورٹی کی وجہ سے ہی ناکام بنایا گیا ہے۔

خوفزدہ دہشت گرد

جی ایچ کیو

کمانڈو سٹائل دہشت گرد حملہ مناواں پولیس مرکز پر ہو، جی ایچ کیو پر ہو یا سری لنکن ٹیم کے خلاف ہو۔سرکاری بیان ایک ہی رہتا ہے

خودکش حملہ آور چاہے لنڈی کوتل کی خاصہ دار بیرک ، پشاور کے خیبر بازار یا اسلام آباد میں عالمی ادارہ خوراک کے دفتر میں پھٹے، بارودی ٹرک چاہے میریٹ اسلام آباد یا پرل کانٹی نینٹل پشاور میں گھسے، یا کمانڈو سٹائل دہشت گرد ایکشن مناواں پولیس مرکز اور سری لنکن ٹیم کے خلاف ہو۔سرکاری بیان ایک ہی رہتا ہے۔

’دہشت گرد گھبراگئے ہیں اور بدحواسی میں یہ حملے اپنی کمزوری چھپانے کے لیے کررہے ہیں۔ دہشت گردوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اب ان کےگرد سکیورٹی فورسز کا دائرہ تنگ ہوچکا ہے۔ پوری قوم ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہے۔اس لیے ان کے یہ حملے بجھتے ہوئے چراغ کی آخری بھڑکتی ہوئی لو ہیں۔ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ایسے حملے ابھی اور ہوں گے۔لیکن دہشت گردی کو بالاخر جڑ سے اکھاڑ دیا جائےگا۔‘

اگر سرکاری بیانات پر یقین کرلیا جائے تو پھر جی ایچ کیو راولپنڈی پر ہونے والا حملہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے۔یعنی درجن بھر دہشت گردوں نے ایک ماہ قبل اسلام آباد کے نزدیک اعوان ٹاؤن میں ’گھبرا‘ کر ایک مکان کرائے پر لیا۔ بیس پچیس روز تک ’ بدحواسی‘ کے عالم میں جائے واردات کے نقشے بنائے اور جی ایچ کیو کے اطراف سروے کیا۔’انتہائی خوفزدہ‘ ہوکر فوجی ودریاں پہنیں اور ’دہشت زدہ‘ ہوکرایک موٹر سائیکل اور سوزوکی وین میں جی ایچ کیو کی دو حفاظتی چوکیاں پار کیں اور کانپتے ہاتھوں سے دو گرینیڈ پھینک کر چھ فوجی افسروں اور جوانوں کو ہلاک کردیا۔

اگر مذکورہ سرکاری بیانات پر یقین کرلیا جائے تو پھر جی ایچ کیو راولپنڈی پر ہونے والا حملہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے۔یعنی درجن بھر دہشت گردوں نے ایک ماہ قبل اسلام آباد کے نزدیک اعوان ٹاؤن میں ’گھبرا‘ کر ایک مکان کرائے پر لیا۔ بیس پچیس روز تک ’ بدحواسی‘ کے عالم میں جائے واردات کے نقشے بنائے اور جی ایچ کیو کے اطراف سروے کیا۔’انتہائی خوفزدہ‘ ہوکر فوجی ودریاں پہنیں اور ’دہشت زدہ‘ ہوکرایک موٹر سائیکل اور سوزوکی وین میں جی ایچ کیو کی دو حفاظتی چوکیاں پار کیں اور کانپتے ہاتھوں سے دو گرینیڈ پھینک کر چھ فوجی افسروں اور جوانوں کو ہلاک کردیا۔

اس دوران دہشت گردوں کے کچھ ساتھی بھی مارے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر باقی دہشت گردوں کے’ہاتھ پاؤں پھول گئے‘ اور انہوں نے دو فوجی عمارتوں میں گھس کر تیس کے لگ بھگ لوگوں کو انیس گھنٹے کے لیے یرغمال بنا لیا۔

دہشت گردوں کی اس ’بدحواسانہ دندناہٹ‘ پر سرکاری طفل تسلیوں پر مجھے وہ قصہ یاد آرہا ہے کہ ایک حکیم صاحب کے پاس ڈائریا کا مریض آیا۔حکیم صاحب نے کہا یہ گولیاں استعمال کرو انشااللہ افاقہ ہوگا۔ حکمت میں چونکہ مرض کو دبا کر نہیں بلکہ ابھار کا ختم کیا جاتا ہےلہذا دوا کے استعمال سے اگراور دست آئیں تو گھبرانا نہیں

دو روز بعد مریض کا بیٹا حکیم صاحب کے پاس آ کر شکایتی لہجے میں بولا کہ ابا کو تو دوا کے استعمال کے بعد اتنے دست آئے ہیں کہ چارپائی سے لگ گئے ہیں۔حکیم صاحب نے کہا گھبراؤ نہیں دوا اثر کررہی ہے اور مرض کو باہر نکال رہی ہے۔ابھی اور دست آئیں گے پھر افاقہ شروع ہوجائےگا۔

تین روز بعد مریض کا بیٹا پھر حکیم صاحب کے پاس آیا یہ بتانے کے لیے کہ ابا کا انتقال ہوگیا ہے۔حکیم صاحب نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا مرنا تو ایک دن سب کو ہے شکر ہے ان کے دست بند ہوگئے۔

No comments: