Sunday, October 18, 2009

جنوبی وزیرستان میں 60 شدت پسند اور پانچ فوجی ہلاک

پاکستانی فوج نے جنوبی وزیرستان میں آپریشن ”راہ نجات“ شروع کرنے کے ایک روز بعد دعوی ٰ کیا ہے کہ اب تک 60 شدت پسند جنگجوؤں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جب کہ پانچ فوجی بھی ان جھڑپوں میں مارے گئے ہیں۔ اتوار کو ہونے والی لڑائی کی تازہ صورت حال پر جاری ہونے والے سرکاری بیان میں گیارہ فوجیوں کے زخمی ہونے کی تصدیق بھی کی گئی ہے ۔

فوجی بیان میں بتایا گیا ہے کہ ماندانہ، کند اور تراکئی کے علاقوں میں سکیورٹی فورسز نے کنٹرول سنھبال لیا ہے اور یہا ں ہونے والی لڑائی میں 30 ”دہشت گردوں“ کو ہلاک کیا گیا جب کہ ان کے متعدد ساتھی زخمی بھی ہوئے۔ ان جھڑپوں میں دو فوجی ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔

رزمک شہر کے جنوب میں اہم پہاڑی چوٹیوں پر بھی فوج نے قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس لڑائی میں دس” دہشت گرد“ مارے گئے اور دو فوجی ہلاک جب کہ چار زخمی ہوئے جن میں دو افسران بھی شامل ہیں۔ باقی کے 20 شدت پسندوں کو شکئی کے جنوب میں سات کلومیٹر دور ہونے والی لڑائی میں ہلاک کیا گیا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ لڑائی والے علاقوں سے مقامی آبادی بڑی تعداد میں پہلے ہی نقل مکانی کرچکی ہے اس لیے ان علاقوں کی صورت حال اور عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے سرکاری دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں۔

لگ بھگ 30 ہزار فوجیوں نے لڑاکا ہیلی کاپٹروں اور بھاری توپ خانے کی مدد سے ہفتہ کے روز تین اطراف سے اس قبائلی علاقے میں طالبان کے مضبوط اڈوں کی طرف پیش قدمی شروع کی اور ابتدائی مرحلے میں ہی سپنکئی رغزئی سے جنگجووں کو پسپا ہونا پڑا جس کے بعد سیکورٹی فورسز نے وہاں پر چیک پوسٹیں قائم کر کے اپنی پوزیشنوں کو مستحکم کرنا شروع کردیا ۔ اس میدانی علاقے میں پچھلے کئی ہفتوں سے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف پاکستانی فوج کے جیٹ طیاروں نے فضائی حملوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا جس نے یہاں پرپیدل فوج کی پیش قدمی کی راہ پہلے ہی ہموار کر رکھی تھی۔

فوجی حکام کا کہنا ہے کا آپریشن کا ہدف جنوبی وزیرستان میں زیادہ ترمحسود قبائل پر مشتمل آبادی والے علاقے ہیں جہا ں سیکورٹی فورسز کو محتاط اندازوں کے مطابق دس ہزار مقامی طالبان اور لگ بھگ پندرہ سو غیر ملکی جنگجووں کا سامنا ہے جن میں اکثریت کا تعلق وسطی ایشیائی ریاست ازبکستان سے ہے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا ہے گزشتہ تین ماہ سے فوج نے ان علاقوں کا محاصرہ کر رکھا تھا جب کہ اس دوران فضائی حملوں میں عسکریت پسندوں کے کئی اہم ٹھکانے بھی تباہ کیے جا چکے ہیں اس لیے ان کے خیال میں طالبان کی لڑائی کی صلاحیتیں کسی حد تک کمزور ہو گئی ہیں۔

اعلیٰ فوجی کمانڈروں کا ماننا ہے کہ وزیرستان ایک ”اندھے کنویں“ کی مانند ہے اس لیے طالبان مخالف آپریشن کب ختم ہوگا اس بار ے میں کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جا سکتی۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی لگ بھگ ایک لاکھ افراد محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کر چکے تھے اور لڑائی شروع ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان مہاجرین کی اکثریت نے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے رشتہ داروں یا پھر عارضی رہائش گاہوں میں پناہ لے رکھی ہے جنہیں ضروری امداد فراہم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے پہلے ہی متحرک ہو چکے تھے۔

No comments: