Sunday, October 11, 2009

جی ایچ کیو آپریشن مکمل:انتالیس یرغمالی رہا، ایک حملہ آورگرفتار

کارروائی کے دوران دو فوجی ہیلی کاپٹر فضا میں گشت کر رہے تھے

راولپنڈی میں فوجی ہیڈکوارٹر میں یرغمال بنائےگئے انتالیس اہلکاروں کو ایک بڑے آپریشن کے بعد بازیاب کرا لیا گیا ہے لیکن تین مغوی اہلکار جان بحق ہوئے ہیں۔ فوجی حکام نے بتایا ہے کہ چار حملہ آوروں کو ہلاک اور ایک کو گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ آپریشن دو مرحلوں میں کیا گیا ہے ۔ فوج کے تعلقات عامہ کے محکمے کے حکام نے بتایا ہے کہ تیس افراد کو ایک عمارت اور بارہ کو دوسری عمارت میں رکھا گیا تھا۔ اس کارروائی میں تین مغوی اور دو آپریشن کرنے والے فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ حکام کے مطابق ایک شدت پسند عقیل عرف ڈاکٹر عثمان کو زخمی حالت میں گرفتار اور چار کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔

اس طرح چوبیس گھنٹے تک جاری رہنے والے اس کارروائی اور آپریشن میں اب تک ایک بریگیڈیئر اور ایک لیفٹیننٹ کرنل اور دو کمانڈو سمیت گیارہ فوجی اور آٹھ شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے۔ آپریشن کی تفصیل یہ رہی کہ بنیادی آپریشن سکیورٹی آفس کی عمارت میں کیا گیا جہاں تیس افراد کو یرغمال بنایاگیا تھا ان میں سے بائیس کو ایک کمرے میں رکھا گیا تھا اور ان کے ساتھ ایک اغوا کار خودکش جیکٹ کے ساتھ موجود تھا۔ آپریشن میں خود کش حملہ آور کو نشانہ بنانے کے بعد سپیشل سیکیورٹی فورسز کے اہلکار عمارت کے اندر داخل ہوئے جہاں فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ اس کارروائی میں اطلاعات کے مطابق دو کمانڈو اور چار حملہ آور ہلاک ہوئے ہیں جبکہ عقیل نامی شدت پسند زخمی حالت میں فرار ہو کر دوسری عمارت میں چلا گیا جہاں سے بارہ مغویوں کو بازیاب کرایا گیا اور عقیل کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ساری رات جی ایچ کیو میں قائم سکیورٹی آفس کی عمارت کو گھیرے میں لینے کے بعد صبح چھ بجے سپیشل سیکیورٹی فورسز نے آپریشن شروع کیاگیا تھا اور اس دوران دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنائی دی گئی تھیں۔

اس آپریشن کے وقت ہر طرف اندھیرا تھا اور سکیورٹی آفس کی عمارت جہاں حملہ آوروں نے بیالیس کے لگ بھگ فوجی اہلکاروں کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔ فضا میں ہیلی کاپٹر پرواز کرتے رہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ روز حملہ آوروں سے فائرنگ کے وقت ہلاک ہونے والے برگیڈیئر انوار الحق رمدے کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے۔ اس کارروائی میں ہلاک ہونے والے ایک دوسری فوجی افسر لیفٹیننٹ کرنل محمد وسیم کو گزشتہ روز ہی صوابی میں ان کے آبائی قبرستان میں دفن کر دیا تھا۔

وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق ان حملہ آوروں نے اسلام آباد کے مضافات میں ایک مکان کرائے پر حاصل کیا تھا اور دو ماہ سے یہاں رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان حملہ آوروں نے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی سے یہ کارروائی کی ہے لیکن پاکستان فوج کے جوانوں نے ان کے عزائم کو ناکام بنا دیا ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر نے سنیچر کو ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کی تصویریں جاری کی تھیں

خیال رہے کہ سنیچر کی صبح ساڑھے گیارہ بجے کے قریب فوجی نمبر پلیٹ والی ایک سفید رنگ کی سوزوکی کیری میں سوار فوجی وردیوں میں ملبوس کئی حملہ آوروں نے جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر ایک پر پہنچ کر سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کر دی تھی۔ گیٹ نمبر ایک پر کم از کم چار سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد یہ حملہ آورگیٹ نمبر دو کی طرف بڑھے لیکن سکیورٹی پر موجود اہلکاروں نے فائرنگ کر کے چار دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ اب تک شدت پسندوں کی کارروائیوں میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اگرچہ مختلف علاقوں میں سرگرمِ عمل طالبان گروہوں میں نظریاتی ہم آہنگی تو موجود ہے لیکن ان میں آپریشنل رابطہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جی ایچ کیو پر ہونے والے حملے کا پریشان کن پہلو یہ ہے کہ یہ حملہ ملک کے مختلف علاقوں میں موجود طالبان عناصر کو یکجا کر سکتا ہے۔ طالبان کی سرگرمیاں اب قبائلی علاقوں اور سوات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان سے متعلقہ چند گروہ جنوبی پنجاب میں بھی سرگرم بتائے جاتے ہیں۔ ’ایسی صورتِ حال میں راولپنڈی یا وسطی پنجاب کے کسی شہر میں اگر کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اس سے تمام گروہوں کو تقویت بھی ملتی ہے اور حوصلہ بھی۔ ان کے اندر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں۔‘ سکیورٹی اداروں کی کامیابی کا پیمانہ زیادہ تر یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی نہیں ہے بلکہ ان کی پریشانی اس آپریشن کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہی گی کیونکہ جی ایچ کیو پر ہونے والے حملے نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ یہ سلسلہ اب قبائلی علاقوں اور سوات سے باہر نکل آیا ہے۔

No comments: