Thursday, October 15, 2009

لاہور میں کیا دیکھا

لاہور ایف آئی اے کی عمارت پر حملہ

لاہور ایف آئی اے کی عمارت پر حملہ

جمعرات کی صبح جب اطلاع ملی کہ ایف آئی اے کی بلڈنگ پر ایک بار پھر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے تو پہلے تو خاصا دھچکا لگا اور پھر حواس بہتر ہونے پر ٹیپمل روڈ پر واقع ایف آئی اے کی بلڈنگ کی طرف روانہ ہوئی۔

یہ عمارت میرے علاقے سے پانچ کلو میٹر پر واقع ہے اور وہاں تک پہنچنے کے لیے جا بجا پولیس ناکوں سے گزرنا پڑا اور پھر ایک چوک ایسا آیا کہ جس سے آگے انہوں نے گاڑی لے جانے کی اجازت نہیں دی کیونکہ یہ کسی ٹی وی چینل کی گاڑی نہیں بلکہ میری ذاتی گاڑی تھی۔خیر اس جگہ گاڑی کھڑی کر کے پیدل ایف آئی اے کی بلڈنگ کا رخ کیا۔

وہاں عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ پولیس کی گاڑیوں کا اور ایمبولینسوں کے سائرن کا شور اور میڈیا کا جمع غفیر تھا۔ایمبولینس پر زخمیوں یا شاید ہلاک ہونے والوں کو لے جایا جا رہا تھا۔ ایک دہشت گرد مارا جا چکا تھا تاہم بلڈنگ کے اندر سرچ آپریشن جاری تھا۔اور گاہے بگاہے فائرنگ کی آوازیں آ رہیں تھیں۔

ایف آئی کی بلڈنگ سے کچھ فاصلے پر کچھ لوگوں کو دیکھا وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اسی جگہ سے دہشت گردوں نے اپنی بندوقیں گولیوں سے بھری تھیں اور یہیں ایک مسجد پر فائرنگ کرتے ہوئے ہوئے وہ ایف آئی اے کی بلڈنگ کی طرف گئے۔

کچھ اور لوگوں سے بات ہوئی جو واقعے کی تفصیلات بتانے کے ساتھ ساتھ اس بات پر خفا تھے کہ ان کا علاقہ ایف آئی اے کی بلڈنگ کے سبب دہشت گردوں کا ہدف ہے جس سے ان کی جانیں بھی غیر محسوس ہیں۔

کچھ دیر بعد ایس پی سول لائنز ڈاکٹر حیدر عباس نے اعلان کیا کہ یہاں سرچ آپریشن ختم ہو چکا ہے حالات قابو میں ہیں اور ایک دہشت گرد مارا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ اور دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں لیکن وہ فرار ہو چکے ہیں۔

ایس پی صاحب کی بات چیت کے کچھ دیر بعد ایک مشتبہ نوجوان کو پکڑنے کا منظر سامنے تھا۔ کالے کپڑوں میں ملبوس اس شخص کے بارے میں کہا گیا کہ یہ صبح سے بلا مقصد یہاں گھوم رہا ہے اور کچھ لوگوں کی نشاندہی پر اسے فوراً پکڑا گیا اوراس نوجوان نے اس پولیس والے کو بہت گھور کر دیکھا جس نے اسے تھپڑ رسید کیا تھا اس کے اس عمل سے اس کے اعتماد کا اندازہ ہوتا تھا۔

اس کے کچھ دیر بعد ذرا اطمینان ہوا تو فائرنگ کی آوازیں پھر آنے لگیں سب پریشان ہو گئے لیکن پتہ یہ چلا کہ عمارت کے تہہ خانے میں کہ جہاں روشنی نہیں وہاں ابھی سرچ آپریشن ہو رہا ہے اور کسی سکیورٹی اہلکار نے ہی فائرنگ کی۔

ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل چوہدری افتخار کچھ دیر بعد آ گئے لیکن انہیں کسی بات کی کوئی خاص تفصیلات معلوم نہیں تھیں۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ ایف آئی اے کی بلڈنگ پہلے بھی حملہ آوروں کا نشانہ بن چکی ہے تو اس کی حفاظت کا کیوں مناسب انتظام نہیں کیا گیا۔

لاہور پولیس کے زخمی اہلکار

لاہور پولیس کے حملے میں زخمی ہونے والے اہلکار

چھ مہینے پہلےمناواں پولیس ٹریننگ سکول میں جب شدت پسندوں نے خوں ریزی کی تھی تو اس پولیس سکول کی دیواروں کی نیچائی کو خاص طور پر تنقید کانشانہ بنایا گیا تھا۔

اب جب دوبارہ حملہ ہوا تو دیواریں بھی وہی تھیں اور ان کی اونچائی بھی اتنی ہی تھی۔ نئے شدت پسند آسانی سے اندر جا کر دوبارہ قتل و غارت گری کا بازار گرم کر سکے۔یہ دیواریں میرے لیے حیرت کا سبب بنیں۔

باقی عام شہریوں کا جوش جذبہ وہی چھ مہینے پرانے جیسا تھا۔جب آپریشن جاری تھا اور دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں۔مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر کے علاوہ بیدیاں ایلیٹ پولیس ہیڈکواٹر کے باہر عام شہری بار بار پاکستان زندہ باد پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگانے لگتے۔

بیدیاں روڈ پر ایلیٹ ٹریننگ سکول میں ہلاک ہونے والے تھانیدار غلام جعفر کا بھائی بابر بہت باحوصلہ دکھائی دیا۔اس نے کہا کہ ’میرے بھائی نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دی ہے مجھے اس پر فخر ہے۔‘

البتہ مناواں پولیس ٹریننک سینٹر میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار سلامت علی کے یتیم ہونے والے بچوں اور بیوہ ہونے والی عورت بے حوصلہ دکھائی دیئے۔ان کا دکھ شاید اس لیے بھی زیادہ تھاکہ وہ اپنے سرپرست سے محروم ہوئے ہیں۔

میرے خیال میں کسی بھی صاحب دل کے لیے مشکل ترین لمحات وہ تھے جب پولیس کے اہلکار سلامت علی کے بچے ایک ویگن میں سوار ہوکر مردہ خانےپہنچے جہاں انہیں بے تحاشہ پیار کرنے والا باپ خون میں لت پت بے حس وحرکت پڑاتھا۔

ہرعام انسان کی طرح اسے نہ تو اپنی موت کے وقت کا علم تھا اور نہ ہی یہ اندازہ تھا کہ اب وہ اپنی بیوی بچوں کو دوبارہ نہیں دیکھ پائے گا۔

اس کی بیوہ کی آنکھوں سے آنسو کی جھڑی لگی تھی۔’وہ تیارہوتے ہوئے کہہ رہے تھا کہ آج جلدی آؤں گا۔وہ تو آیا ہی نہیں۔‘

ان تینوں واقعات میں کم از کم چھبیس انسان زندگی ہار گئے ہیں۔ان میں وہ بھی شامل ہیں جو راہ گیر تھے اور غلبے کی جنگ میں بظاہر لاتعلق تھے۔ وہ بھی ہیں جو سرکاری فورس کا حصہ تھے اور وہ انسان بھی شامل ہیں جنہوں نے یہ جانتے بوجھتے اپنے آپ کو تشدد کی آگ میں جھونک دیا کہ اس کا کم سے کم نتیجہ ان کی موت کی صورت میں نکلے گا۔

No comments: