Thursday, October 15, 2009

اوباما نے بل پر دستخط کر دیے

امریکی صدر براک اوباما

امریکی صدر براک اوباما وائٹ ہاؤس میں کیری۔لوگر بل پر دستخط کر رہے ہیں

پاکستان کی امداد کے لیے پیش کیے جانے والے متنازعہ کیری۔لوگر بل پر امریکی صدر براک اباما نے دستخط کر دیے ہیں اور اس طرح اب یہ 7.5 ارب ڈالر کا بل قانون بن گیا ہے۔

اس بل پر دستخط امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان کی خارجی امور کی کمیٹیوں کے چیئرمن سینیٹر جان کیری اور کانگریس مین ہاورڈ برمن کی پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان ملاقاتوں کے بعد کیے گئے۔ یہ دونوں اشخاص یہ بل پیش کرنے والوں میں شامل ہیں۔

کیری۔لوگر بل میں پاکستان کی فوجی امداد سے متعلق امریکی انتظامیہ پر بعض شرائط عائد کی گئی ہیں جن کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو ہر چھ ماہ بعد امریکی کانگریس کے سامنے یہ تصدیق کرنا ہے کہ پاکستان اپنی بیانیہ پالیسی کے تحت القاعدہ اور دیگر شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہا ہے، جوہری عدم پھیلاؤ کے اقدامات کو جاری رکھے ہوئے ہے اور جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کو حملوں کے لیے نہ اپنی سر زمین استعمال کرنے دے رہا ہے اور نہ ہی ان تنظیموں کو کسی طرح کی سرکاری مدد اور حمایت حاصل ہے۔

امریکی کانگریس کے ان دونوں اراکین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بل میں ایسی کوئی شرائط نہیں ہیں جس سے پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہو۔

اس بل سے پاکستان کو دی جانے والی غیر فوجی امداد میں تین گنا اضافہ ہو گا اور پاکستان کو اگلے پانچ سال تک ہر سال 1.5 ارب ڈالر ملیں گے۔

اس بل کی امریکی کانگریس سے منظوری کے بعد، پاکستان میں اس پر شدید تنازعہ پیدا ہوا اور پاکستان کی فوج سمیت متعدد سیاسی جماعتوں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

بعض مذہبی جماعتوں نے اس کو پاکستان کے اقتدار اعلیٰ میں مداخلت اور قومی سلامتی کے خلاف قرار دیا۔

پاکستان میں فوج اور سیاستدانوں کی طرف سے بل کی مخالفت کے بعد وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی واشنگٹن چلے گئے تھے جہاں انہوں نے امریکی اہلکاروں سے بل کے متعلق مزید مذاکرات کیے۔

جان کیری، شاہ محمود قریشی اور ہاورڈ برمین

پاکستان میں بل کی شدید مخالفت کے بعد شاہ محمود قریشی مذاکرات کے لیے امریکہ چلے گئے تھے

پاکستان فوج نے بل کے متعلق اپنی ’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ بل میں قومی سلامتی کے متعلق شقوں پر مطمعن نہیں ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گبز نے کہا کہ بل پاکستان کے جمہوری اداروں اور پاکستانی عوام کے لیے حمایت ظاہر کرتا ہے۔

بل پر پیدا ہونے والے خدشات اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں سامنے آنے والے تحفظات پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی اہلکاروں سے مذاکرات کیے جس کے بعد بدھ کے روز امریکی حکام نے کیری۔لوگر بل پر وضاحتی دستاویز جاری کر دی۔

دستاویز میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ امریکہ پاکستان کی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس دستاویز کو ایک تاریخی دستاویز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے فوج سمیت تمام قوم کے خدشات دور ہوجائیں گے۔

سینیٹر جان کیری اور کانگریس مین ہاورڈ برمن نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس وضاحتی دستاویز کا اجرا کیا۔

دستاویز میں یہ بھی واضع کیا گیا ہے کہ کیری۔لوگر بل پاکستان کی سالمیت اور اقتدار اعلیٰ میں مداخلت نہیں کرتا اور نہ ہی پاکستان کی قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے پاکستان کے سویلین یا فوجی معاملات میں مداخلت چاہتا ہے۔

اس میں لکھا ہے کہ امریکہ پاکستانی فوجی افسران کی تقرری، تبادلوں یا ترقیوں میں ہرگز اثر انداز نہیں ہونا چاہتا ہے اور نہ ہی پاکستان پر کوئی شرط عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپنے اندرونی معاملات کے بارے میں امریکہ کو کوئی ثبوت یا وضاحتیں پیش کرے۔

کیری۔لوگر بل میں پاکستان کی فوجی امداد سے متعلق امریکی انتظامیہ پر بعض شرائط عائد کی گئی ہیں جن کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو ہر چھ ماہ بعد امریکی کانگریس کے سامنے یہ تصدیق کرنا ہے کہ پاکستان اپنی بیانیہ پالیسی کے تحت القاعدہ اور دیگر شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہا ہے، جوہری عدم پھیلاؤ کے اقدامات کو جاری رکھے ہوئے ہے اور جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کو حملوں کے لیے نہ اپنی سر زمین استعمال کرنے دے رہا ہے اور نہ ہی ان تنظیموں کو کسی طرح کی سرکاری مدد اور حمایت حاصل ہے۔

کیری۔لوگر بل میں پاکستان کی فوجی امداد سے متعلق امریکی انتظامیہ پر بعض شرائط عائد کی گئی ہیں جن کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو ہر چھ ماہ بعد امریکی کانگریس کے سامنے یہ تصدیق کرنا ہے کہ پاکستان اپنی بیانیہ پالیسی کے تحت القاعدہ اور دیگر شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہا ہے، جوہری عدم پھیلاؤ کے اقدامات کو جاری رکھے ہوئے ہے اور جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کو حملوں کے لیے نہ اپنی سر زمین استعمال کرنے دے رہا ہے اور نہ ہی ان تنظیموں کو کسی طرح کی سرکاری مدد اور حمایت حاصل ہے۔

پاکستان کو دی جانے والی امداد کے درست استعمال کے حوالے سے امریکی کانگریس نے امریکی انتظامیہ کو پابند کیا ہے کہ وہ کانگریس کو اس بارے میں رپورٹیں پیش کرتی رہے۔

اطلاعات ہیں کہ یہ تمام امدادی رقم پاکستانی حکومت کو نہیں دی جائے گی بلکہ اس رقم کا کچھ حصہ اسلام آباد میں قائم امریکی سفارتخانے کے ذریعے پاکستان میں مختلف منصوبوں کے لیے مختص کیا جائے گا۔

امریکی حکام نے بتایا ہے کہ صدر آصف زرداری کی حکومت کو گزشتہ ایک برس میں تین ارب ڈالر کی امداد دی جا چکی ہے۔

امریکی وضاحتی بیان کے باوجود اصل بل میں کسی تبدیلی کے نہ ہونے کی وجہ سے امکان یہی ہے کہ پاکستان میں اس پر تنازعہ جاری رہے گا۔

No comments: