Saturday, October 24, 2009

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے: ڈاکٹر فاروق ستار کا بیان
پاکستان میں ترقی اور خوش حالی اُس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ وہاں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا
ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ یہ قائدِ اعظم محمدعلی جناح کےنظریے والا ملک ہے یا یہ بیت اللہ محسود کا ملک ہے؟ آج یہ صورتِ حال ہے کہ دہشت گردی کےخطرے کےباعث ملک کے تعلیمی اداروں تک کو بند کرنا پڑا؟
کینیڈا میں سات روزہ دورے پر آئے ہوئے سمندرپار پاکستانیوں کے وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ پاکستان میں ترقی اور خوش حالی اُس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ وہاں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ٹورنٹو میں ہفتے کے دِن پاکستان کی کئی تنظیموں کی جانب سے دیے گئے استقبالئے سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف اب جنگ فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔فاروق ستار نے کہا کہ حکومت نے یہ عزم کرلیا ہے کہ قائدِ اعظم کے پاکستان کو دہشت گروں سے نجات دلا کر ہی دم لے گی۔اُن کے اپنے الفاظ میں: ‘ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ یہ ملک قائدِ اعظم محمد علی جناح کے نظریے کا ملک ہے یا یہ ملک بیت اللہ محسود کا ملک ہے کہ آج یہ صورتِ حال ہے کہ دہشت گردی کے خطرے کے باعث ملک کے تعلیمی اداروں تک کو ہمیں بند کرنا پڑا۔’فاروق ستار نے یہ بھی کہا کہ وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں ملٹری آپریشن اُس وقت کیا جب دہشت گردوں نے مسائل کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔اُنھوں نے مزید کہا کہ مسائل کے حل کے لیے حکومت نے معاہدے بھی کیے لیکن دہشت گردوں نے تخریب کاری کا عمل جاری رکھا۔استقبالیہ کے بعد وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے فاروق ستار نے اِس تاثر کو غلط قراردیا کہ کیری لوگر بِل کے معاملے میں کسی نتیجے پر پہنےو بغیر ہی قومی بحث ختم کردی گئی۔اِس ضمن میں اُنھوں نے کہا ‘جو پارلیمان میں بحث ہورہی تھی کیری لوگر بِل پر وہ اچانک ختم نہیں ہوئی۔ اُس میں تمام سیاسی جماعتوں کی سوچ اور فکر اور اُن کی رائے جب سامےح آئی اور شاہ محمود قریشی صاحب اُس رائے کو لے کر عوام کے جذبات کو لے کر امریکہ گئے اوروہاں پر لوگوں نے سیاسی طور پر مسئلے کو حل ہوتے ہوئے دیکھا، قانونی طور پر نہیں۔’
کوٹ کئی پر قبضہ طالبان کے خلاف اہم کامیابی ہے‘‘
ہفتے کے روز اسلام آباد میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ اور فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں پاکستانی طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے آبائی گاؤں کوٹ کئی کا کنٹرول سنبھالنا عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں ایک نہایت اہم کامیابی ہے۔وزیراطلاعات کا دعویٰ تھا کہ کوٹ کئی میں حکیم اللہ محسود اور خودکش حملہ آوروں کے سرغنہ قاری حسین کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا ہے اور ان کے مطابق اس گروہ کے ارکان اب پسپائی اختیار کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان سے دہشت گردوں سے بھاگنے کے تمام راستےبندکردیے گئے ہیں جب کہ اس علاقے سے نقل مکانی کرنے والے تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد کے لیے فاٹاسیکریٹیریٹ کو اڑھائی ارب روپے دیے گئے ہیں۔میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا تھا کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران جنوبی وزیرستان آپریشن میں 21 شدت پسند اور تین سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خفیہ اداروں کی اطلاعات کے مطابق بہت سے جنگجو اب طالبان قیادت کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اورسوات کی طرح جنوبی وزیرستان سے بھی شدت پسند اپنے حلیے تبدیل کرکے فرار ہورہے ہیں
جنوبی وزیرستا ن میں تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے آبائی گاؤں کوٹکئی پر پاکستانی فوج کے قبضے کومبصرین سکیورٹی فورسز کی ایک اہم کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ جنوبی وزیرستا ن سے تعلق رکھنے والے سابق فوجی افسر اورتجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام وزیر کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ حکیم اللہ محسود اور طالبان کے ایک اہم کمانڈر قاری حسین کے آبائی گاؤں کی وجہ سے عسکریت پسندوں کا گڑھ تھا ۔
انعام وزیرکا کہنا ہے کہ کوٹکئی پر قبضے کے بعد فوج کوطالبان جنگجوؤں کے زیر اثر دو دوسرے اہم علاقوں مکین اور لدھا کی طرف بھی پیش قدمی میں آسانی ہو گی۔
تجزیہ نگار پروفیسر رفعت حسین بھی کوٹکئی پر فوج کے قبضے کو اہم قرار دیتے ہیں اور اُن کا ماننا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف برسرپیکار فوجیوں کی کوشش ہو گی کہ برفبار ی شروع ہونے سے قبل ہی زیادہ سے زیادہ علاقے کو قبضے میں لے پوزیشن مستحکم کر لی جائے۔
رفعت حسین کا کہنا ہے کہ علاقے میں پیش قدمی کے ساتھ ساتھ فوج کو یہ بات بھی مد نظر رکھنا ہو گی کہ آپریشن کے دوران عسکریت پسندجنوبی وزیرستان سے فرار نہ ہونے پائیں کیوں کہ اُن کے بقول اگرجنگجو زندہ فرار ہونے میں کامیاب ہو ئے تو یہ سکیورٹی فورسز کی ایک بڑی ناکامی ہو گی۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس جس میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت اعلیٰ فوجی اور سول حکام نے شرکت کی تھی ، یہ اعلان کیا گیا تھا کہ جنوبی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور اُس میں ناکامی کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگی

No comments: