Thursday, October 15, 2009

’القاعدہ، سپاہِ صحابہ تعلق حملوں کی وجہ‘

لاہور میں حملہ

’شدت پسند جان بوجھ کر پنجاب میں سکیورٹی فورسز کے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں‘

راولپنڈی میں فوج کی ہیڈکوارٹر کی طرح لاہور میں جمعرات کو ہونے والے بیک وقت تین حملے ظاہر کرتے ہیں کہ حملہ آور نہ صرف یہ کہ پرعزم اور اعلٰی تربیت یافتہ ہیں بلکہ وہ اہداف کے انتخاب سے لے کر اپنے عزائم کی تکمیل تک مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کارروائی کر رہے ہیں۔

جی ایچ کیو کی طرح لاہور میں پولیس کے دو تربیتی مراکز اور وفاقی تحقیقاتی ادارے پر حملے میں ملوث افراد ان انتہائی حد تک زیر حفاظت عمارتوں کے بیرونی حفاظتی حصار کو توڑ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب رہے۔

ان میں سے دو عمارتیں مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر اور ایف آئی اے کا دفتر پہلے بھی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ بیدیاں روڈ پر واقع ایلیٹ پولیس کے صدر دفتر پر حملے کے بارے میں پولیس اور انٹیلی جنس ذرائع کئی روز قبل ہی متنبہ کر چکے تھے کہ یہ ادارہ دہشتگردوں کی ہٹ لسٹ پر ہے۔

حملہ آوروں نے ان اہدف کے محل وقوع اور حفاظتی اقدامات کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے

چوہدری احمد نسیم

صوبہ پنجاب کے سابق پولیس سربراہ جہانگیر مرزا کا کہنا ہے کہ شدت پسند جان بوجھ کر پنجاب میں سکیورٹی فورسز کے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔’ان لوگوں کا ہدف سکیورٹی اداروں میں بددلی اور خوف اور عوام میں بےچینی پیدا کرنا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مقصد کے حصول کے لیے صوبہ پنجاب سے زیادہ مناسب ہدف کوئی نہیں ہو سکتا۔‘

سابق انسپکٹر جنرل نے کہا کہ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں زیرعتاب آنے کے بعد شدت پسند ملک کے سب سے بڑے صوبے میں موجود اپنے اثاثے استعمال کر رہے ہیں۔’صوبہ پنجاب میں ہونے والی ان کارروائیوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ کالعدم سنی انتہا پسند تنظیم سپاہ صحابہ کے سابق ارکان ملوث ہیں۔ ہمیں انٹیلی جنس ذرائع اور گرفتار ملزمان سے تفتیش کے ذریعے کئی برس قبل معلوم ہو گیا تھا کہ سپاہ صحابہ کے مفرور لوگوں نے القاعدہ کے ساتھ مراسم بنا لیے تھے اور اب ان دو دہشت گرد گروپوں کے درمیان تعلقات کار ہی صوبہ پنجاب پر آفت بن کر ٹوٹ رہے ہیں۔‘

ہمیں انٹیلی جنس ذرائع اور گرفتار ملزمان سے تفتیش کے ذریعے کئی برس قبل معلوم ہو گیا تھا کہ سپاہ صحابہ کے مفرور لوگوں نے القاعدہ کے ساتھ مراسم بنا لیے تھے اور اب ان دو دہشت گرد گروپوں کے درمیان تعلقات کار ہی صوبہ پنجاب پر آفت بن کر ٹوٹ رہے ہیں‘۔

جہانگیر مرزا

جہانگیر مرزا نے کہا کہ صوبہ سرحد میں ان شدت پسندوں کے مراکز کے تباہ ہو جانے کے بعد پنجاب میں یہ اپنے پرانے ’سلیپر سیلز‘ کو دوبارہ فعال بنا رہے ہیں۔ ’لیکن ان سلیپر سیلز کے دوبارہ فعال ہونے کے بعد ان تک پہنچ کے دروازے بھی کھل گئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ بہت جلد صوبہ پنجاب میں بھی ان لوگوں کے نیٹ ورک توڑ دیے جائیں گے۔‘

پنجاب پولیس کے ایک اور سابق سربراہ چوہدری احمد نسیم، جو کہ صوبے میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کی تحقیقات کر چکے ہیں، نےبتایا کہ یہ تینوں اہداف بہت سوچ سمجھ کی منتخب کیےگئے تھے اور لگتا یہی ہے کہ حملہ آور کئی روز تک ان اہداف کا پیشگی جائزہ لیتے رہے ہیں۔ ’جس طرح حملہ آوروں نے ان اہداف کے محل وقوع اور حفاظتی اقدامات کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حملہ آوروں کے پاس اپنے ہدف کے بارے میں بہت معلومات تھیں۔‘

ان مربوط اور منظم حملوں نے حکومت کے ان دعوؤں پر سوالیہ نشان ثبت کر دیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد شدت پسندوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ راہِ فرار پر مجبور ہیں

No comments: