Sunday, October 11, 2009

ملک میں پ
فائل فوٹو ، طالبان

وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی جنوبی پنجاب میں شدت پسندوں کی سرگرمیوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے

پاکستان میں ان خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ شدت پسند پاک افغان سرحدی علاقے سے نکل کرملک کے اندر تک پھیل رہے ہیں۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والی شدت پسند تنظیمیں پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اپنی جڑیں پکڑتی جا رہی ہیں۔

جنوبی پنجاب میں رواں سال تیرہ جولائی کو عبدالرزاق کےگاؤں میں دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے ان کے جسم کا بیشتر حصہ ضائع ہو گیا۔ دھماکے میں سترہ افراد ہلاک ہوئے۔ رزاق کے گھر میں واحد بچنے والی چیز ایک لکڑی کی کرسی تھی۔

دھماکے کے بعد جب عبدالرزاق کے حواس بحال ہوئے تو انہوں نے اپنے بچوں کو تلاش شروع کی جو دھماکے کے وقت گھر کے صحن میں کھیل رہے تھے، لیکن ان کی لاشیں وہاں سے کوئی تین گھر دور سے ملیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے اپنے ایک بیٹے کی لاش دیکھی جس کا سر دھماکے کی وجہ سے دھڑ سے جدا ہو چکا تھا۔ اس کے بعد دوسرے بیٹے پر نظر پڑی جو ان کے سامنے کچھ دیر بعد ہی موت کےمنہ میں چلا گیا۔پھر سب نے مل کر ملبے سے بیٹی کی لاش نکالی۔‘

عبدالرزاق کے تینوں بچوں کی بے نام قبریں کپاس کے ایک کھیت میں موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک بیٹا جو بم دھماکے میں زخمی ہو گیا تھا اپنے ہلاک ہونے والے بہن بھائیوں کے بارے میں اکثر پوچھتا رہتا ہے۔

’میرا دل گھبراتا ہے، میں سکون سے نہیں بیٹھ سکتا، گاؤں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتا رہتا ہوں۔‘

عبدالرزاق کے دور دراز گاؤں میں ہونے والا یہ دھماکہ جنوبی پنجاب میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے حوالے سے ایک چونکا دینے والی خبر تھی۔

ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب میں غربت، مضبوط جاگیردارانہ نظام اور تعلیم کی کمی جیسے مسائل کی وجہ سے علاقے کو جہادی تنظیمیں اور طالبان اپنی پناہ گاہیں بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ یہ علاقہ شدت پسندوں کی بھرتی کے لیے ایک بڑا مرکز یا نرسری بن سکتا ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق یہاں حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔

مختلف سینیئر پولیس افسران، غیر جانبدار تجزیہ کاروں اور زیر حراست شدت پسندوں سے حاصل ہونے والی معلومات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب پاکستان کا اگلا میدان جنگ بن سکتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب میں غربت، مضبوط جاگیردارانہ نظام اور تعلیم کی کمی جیسے مسائل کی وجہ سے علاقے کو جہادی تنظیمیں اور طالبان اپنی پناہ گاہیں بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خدشہ ہے کہ یہ علاقہ شدت پسندوں کی بھرتی کے لیے ایک بڑا مرکز بن سکتا ہے۔

پولیس کے مطابق القاعدہ کالعدم مذہبی تنظیموں مثلاً سپاہ صحابہ کی مدد سے اس علاقے سے کارکن بھرتی کر سکتی ہے۔

پاکستان میں شدت پسندی کے رجحان پر نظر رکھنے والے ایک ماہرعظمت عباس کے مطابق القاعدہ علاقے میں کمزور شدت پسند تنظیموں کے ساتھ ہمددرانہ تعلقات رکھتے ہوئے بعد میں ان کو اپنے اندر ضم کرسکتا ہے۔

عظمت عباس کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کا اس خطرے پر ردعمل پریشان کن ہے جو دوسرے علاقوں تک پھیل رہا ہے۔‘ ہمیں سب سے پہلے اس مسئلے کا احاطہ کرنا ہوگا کیونکہ شدت پسندوں کی توجہ صرف پنجاب تک محدود نہیں اور ان کے خلاف بیک وقت متعدد محاذ کھولنا ہونگے۔‘

پاکستان کا اس خطرے پر ردعمل پریشان کن ہے اور اب یہ اثر دوسرے علاقوں تک پھیل رہا ہے۔ہمیں سب سے پہلے اس مسئلے کا احاطہ کرنا ہو گا کیونہ شدت پسندوں کی نظریں صرف پنجاب تک محدور نہیں اور اس کے لیے ہمیں ان کے خلاف بیک وقت متعدد محاذ کھولنا ہونگے

عظمت عباس

پنجاب کے شہر سرگودھا میں پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پنجاب میں القاعدہ کالعدم تحریک طالبان کے زیر سایہ سرگرم ہے اور یہ ہی سب سے بڑا خطرہ ہے جس کا ہمیں سامنا ہو سکتا ہے۔

پولیس نے رواں سال کارروائی کرتے ہوئے شدت پسندوں کے متعدد ٹھکانوں کو ختم کرتے ہوئے تیس کے قریب مشتبہ شدت پسند، ان کے ماسٹر مائنڈ اور مالی امداد فراہم کرنے والوں کو گرفتار کیا ہے۔

ضلعی پولیس افسر عثمان انور کے مطابق حالیہ کارروائی سے شدت پسندوں کو نقصان پہنچا ہے اور اب وہ بھاگ رہے ہیں اور محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں ہیں۔ ’ہماری کارروائی کی وجہ سے مستقبل کے لیے شدت پسندوں کی بھرتی رک گئی ہے اور جن ہیروز کی پوجا کی جاتی تھی وہ اب جیلوں میں ہیں۔‘

عثمان انور کے مطابق کارروائی ابھی جاری ہے اور اس میں کامیابی کے امکانات اسی فیصد تک ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں سے متعدد پولیس کو مطلوب نہیں تھے۔ مثال کے طور پر جس شخص کی وجہ سے عبدالرزاق کا گاؤں دھماکہ خیز مواد سے تباہ ہوا تھا وہ علاقے میں ایک معزز سکول ٹیچر سمجھا جاتاتھا۔

حالیہ کارروائی سے شدت پسندوں کو نقصان پہنچا ہے اور اب وہ بھاگ رہے ہیں اور محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں ہیں۔ہماری کارروائی کی وجہ سے مستقبل میں شدت پسندوں کی بھرتی رک گی ہے اور جن ہیروز کی پوجا کی جاتی تھی وہ اب جیلوں میں ہیں

عثمان انور

علاقے کے لوگوں کے مطابق سکول ٹیچر کبھی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہا اور جس وقت ان کے گھر میں دھماکہ خیز مواد پھٹا تھا تو ملبے پر کھڑے مرد اور عورتیں انہیں ایک نیک دل اور شریف شخص کہہ رہے تھے۔

ایک مقامی دیہاتی کے مطابق سکول ٹیچر ان کے گاؤں میں پیدا اور جوان ہوئے۔ اس طرح ہمیں کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں کیا کر رہے تھے۔

سکول ٹیچر جنہوں نے تسلیم کیا ہے کہ عبدالرزاق کے گاؤں میں ہونے والے دھماکے کے ذمہ دار وہ ہیں۔( انٹرویو کے دوران ان کا چہرہ ڈھانپا ہوا تھا اور وہ ہتھکڑی پہنے ہوئے تھے)۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے رابطے افغانستان میں سرگرم عمل شدت پسندوں سے تھے اور ان کے لیے دھماکہ خیز مواد جمع کر رہے تھے۔ جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا کبھی انہوں نے سوچا تھا کہ دھماکہ خیز مواد سے ان کے دوست اور ہمسائے ہلاک ہو جائیں گے تو اس پر انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ ’میں گھٹنوں کے بل جھک کر متاثرین سے معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔‘

لیکن انہوں نے کہا کہ وہ اس بات پر لازمی خوش ہوتے اگر دھماکہ خیز مواد سے افغانستان میں تعینات امریکی اور برطانوی فوجی مارے جاتے۔‘

شدت پسند پاکستان فوج کے لیے ایک معمولی سپاہی تھے جنہیں حکومتی ایجنسیوں کی پشت پناہی حاصل تھی لیکن نائن الیون کے واقعے کے بعد حکومت نے ان کی مالی وسائل، حمایت اور تربیت کے لیے جگہ فراہم کرنا چھوڑا دیا جس کے بعد یہ ریاست کے خلاف ہو گئے

پولیس افسر

اگر مجھے مستقبل میں خدا نے دوبارہ موقع دیا تو میں لازمی افغانستان میں امریکی اور برطانوی فوج کے خلاف لڑوں گا۔

سکول ٹیچر نے مزید بتایا کہ انہوں نے انیس سو چھیاسی میں افغانستان میں عسکری تربیت حاصل کی تھی لیکن وہاں کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت جہادیوں کو حکومت کی حمایت حاصل ہوتی تھی۔

شدت پسند گروہوں کو ماضی میں حکومت کی حمایت حاصل ہوتی تھی۔ اور وہ حکومت کی کشمیراور افغان پالیسی کا آلہ کار ہوا کرتے تھے۔ اور اب بھی پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں ان کے ہمددر موجود ہیں لیکن حالیہ دنوں میں ان کا رویہ تبدیل ہوا ہے۔

شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے والے ایک پولیس افسر کے مطابق’ شدت پسند پاکستان فوج کے لیے ایک معمولی سپاہی تھے جنہیں حکومتی ایجنسیوں کی پشت پناہی حاصل تھی لیکن نائن الیون کے واقعے کے بعد حکومت نے ان کو مالی وسائل، حمایت اور تربیت کے لیے جگہ فراہم کرنا چھوڑ دی جس کے بعد یہ ریاست کے خلاف ہوگئے۔‘

ھیلتے شدت پسند نیا خطرہ

No comments: