Sunday, October 11, 2009

پنجاب: طالبان کا اثر و نفوذ

مبینہ خودکش بمبار کے ہتھکڑی لگے ہاتھ

جہاں پاکستانی فوج ملک کے شمال مغرب میں شدت پسندوں کے خلاف کئی محاذوں پر مصروف ہے وہاں صوبہ پنجاب کی پولیس نے بھی شدت پسندی کے خلاف کریک ڈاؤن میں کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

حالیہ دنوں میں پنجاب میں موجود شدت پسندوں کے کئی گروہوں کا قلع قمع کیا گیا۔ اس دوران متعدد گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں سے ایک نے بم تیار کرنے جبکہ ایک دوسرے شخص نے خودکش بمبار ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ شدت پسندوں او پولیس افسروں سے گفتگو پر مبنی تفصیل کچھ یوں ہے۔

پولیس کو ایک اہم کامیابی اس وقت ملی جب اس نے ایک برقع پوش مرد کو گرفتار کیا۔ ملزم کا خیال تھا کہ یہ ڈھیلا ڈھالا لبادہ اس کے پاس موجود خودکش بیلٹ اور دھماکہ خیز مواد کو چھپانے میں مددگار ہوگا۔ لیکن پولیس نے ایک مسافر بس کی تلاشی کے دوران اسے دھر لیا۔

وہ ہم سے جو بھی کہیں گے ہم کریں گے۔ اگر ہمارا کمانڈر ہم سے ہمارے والدین کو مار ڈالنے کو بھی کہے تو ہم کر گزریں گے۔

ممکنہ خودکش بمبار

ہوا یوں کہ ایک پولیس والا اتفاقاً اس کے جسم سے ٹکرایا تو پولیس والے کا ہاتھ کسی سخت چیز سے چھو گیا۔ اور یہ ہی اس بمبار کے مشن کا آخری لمحہ ثابت ہوا۔ یہ پولیس افسر کی آخری سانس بھی ہوسکتی تھی! تاہم بعد میں پتہ چلا کہ دھماکہ خیر مواد کی تاریں ڈیٹونیٹر سے جُڑی ہوئی نہیں تھیں۔

اس کے بعد علاقائی پولیس سربراہ اکبر ناصر خان نے موقع پر پہنچ کر بمبار کو غیر مسلح کیا۔ اکبر ناصر کہتے: ’ہمارے افسروں کے پاس اس کی تربیت نہیں ہے۔ نہ ہی خودکش بمبار کو غیر مسلح کرنے کا کوئی معیاری طریقہ کار۔ اس لیے یہ کام مجھے کرنا پڑا۔‘

اکبر خان نے اپنے قریب کھڑے ہوئے مبینہ بمبار سے مذاقاً پوچھا: ’کیا تم نے پہلے بھی ایسا کام کیا ہے؟‘ بمبار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ انسان ایک ہی بار ایسا کر سکتا ہے۔

دھماکہ خیز مواد

ملزمان کے قبضے سے برآمد کیا گیا خودکش بم میں استعمال ہونے والا دھماکہ خیز مواد

ملزم نے بم تیار کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔ اس کے بقول وہ یہ خودکش جیکٹ سرگودھا میں منتظر ایک خودکش بمبار کو دینے کے لیے لے جا رہا تھا۔

اس گرفتاری کے بعد پولیس نے علاقے میں طالبان کے ایک گروہ کا پتہ لگایا اور کئی گرفتاریاں عمل میں آئیں جن میں مذکورہ خودکش بمبار، ان کے لیے چندہ جمع کرنے والا، خودکش دھماکوں کے لیے لوگوں کو قائل کرنے اور انہیں ان کی منزل تک پہنچانے والا شامل ہیں۔ تاہم ان کا مقامی سربراہ اب تک مفرور ہے۔

ایک دور افتادہ مقام پر ہماری ملاقات برقع پوش بم ساز سے کروائی گئی۔ اس کی عمر پچیس برس اور غیرشادی شدہ ہے۔ اس نے وزیرستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ اس کا کہنا تھا: ’میری جماعت میں پندہ سولہ افراد تھے جنہیں دھماکہ خیز مواد کی تربیت دی گئی تھی۔ پہلے یہ لوگ افغانستان میں تھے مگر اب پاکستان میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم وہاں کیوں جائیں جب یہاں اتنا کچھ کرنے کو ہے۔ اب وہ کسی کے بھی کہنے پر افغانستان نہیں جائیں گے۔‘

اس کے بقول یہ تربیتی کیمپ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کا تھا تاہم اس نے خود کبھی بیت اللہ محسود کو نہیں دیکھا۔

ہم، دونوں فریق، جانتے ہیں کہ یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ یہ جنگ آنے والے وقت کے لیے اہم ہے اور آئندہ چندہ ماہ میں فیصلہ ہوجائے گا کہ پاکستان کس راہ جاتا ہے۔

پولیس افسر اکبر خان

اس نے ہمارے سوالوں کے جواب شائستگی اور بے تکلفی سے دیے مگر تھے دھلانے والے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ خودکش بمبار بن چاہتا ہے اور جب رہائی ملے گی تو کوئی بڑا کام کرے گا۔

سرگودھا میں گرفتار ہونے والے ممکنہ خودکش بمبار کو بھی کسی قسم کا پچھتاوا نہیں تھا۔ اس کی عمر تیس برس اور غیرشادی شدہ ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ اسے اپنے ہدف کا علم نہیں تھا کیونکہ وہ بعد میں بتایا جانا تھا۔

جب ہم نے اس کا انٹرویو کیا تو اس کے پیروں میں بیڑیاں تھیں اور چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ معصوم لوگوں کو ہلاک کرنے کا اس کے پاس کیا ممکنہ جواز ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب تھا: ’جب وہ ہمیں یہاں سے تربیت کے لیے لے کر جاتے ہیں تو ہم سے کہتے ہیں کہ یہ جہاد ہے۔ وہ ہمارا برین واش کر دیتے ہیں اور ہم یہ سجمھتے ہیں کہ یہ ہی جنت کا راستہ ہے۔‘

پنجاب پولیس

پنجاب پولیس نے صوبے میں متعدد شدت پسندوں کو گرفتار کیا ہے

میں نے پوچھا کہ اگر اسے عورتوں اور بچوں کو ہلاک کرنے کا کہا جائے تو کیا وہ ایسا کرے گا۔ اس نے کہا: ’وہ ہم سے جو بھی کہیں گے ہم کریں گے۔ اگر ہمارا کمانڈر ہم سے ہمارے والدین کو مار ڈالنے کو بھی کہے تو ہم کر گزریں گے۔‘

میں نے اس سے پوچھا: ’اگر تمہیں حکم ملے کہ مجھے مار ڈالو تو کیا تم ایسا کرو گے؟‘ اس نے بلا کسی جھجھک کے جواب دیا: ’کیوں نہیں؟‘

پنجاب میں پولیس نے پانچ ارکان پر مشتمل طالبان کے ایک اور گروہ کو بھی گرفتار کرنے کا دعوٰی کیا۔

سرگودھا میں پولیس سپرنٹنڈنٹ عثمان انور کا کہنا ہے: ’حکومت اور پولیس کی کارروائی کے مد نظر یہ لوگ اپنا طریقۂ کار تبدیل کر رہے ہیں۔ مگر ساتھ ہی تتربتر بھی ہو رہے ہیں‘۔

پاکستان میں کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مستقبل کا انحصار پنجاب کے حالات پر ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر طالبان پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے کو غیرمستحکم کر سکتے ہیں تو وہ ملک کو بھی زک پہنچا سکتے ہیں۔

پولیس افسر اکبرخان کے بقول یہ ایک اہم لمحہ ہے: ’ہم، دونوں فریق، جانتے ہیں کہ یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ یہ جنگ آنے والے وقت کے لیے اہم ہے اور آئندہ چندہ ماہ میں فیصلہ ہوجائے گا کہ پاکستان کس راہ جاتا ہے‘۔

میانوالی: ’دہشت گرد گرفتار

پولیس اہلکار(فائل فوٹو)

دہشتگردوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا: پولیس

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی میں پولیس نے دو دہشت گردوں کو بھاری اسحلہ سمیت گرفتار کرنے کا دعویْ کیا ہے۔ پولیس کے مطابق گرفتار کیے جانے والے دہشت گردوں کا نام عبداللہ عرف غزالی اور سلیم زمان ہے۔

پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر میانوالی کو یہ اطلاع ملی کہ ڈیرہ ازارن عالم خان پر کچھ دہشت گرد آئے ہیں جو چینی انجیئنروں کے اغوا کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور بروقت کارروائی کی جائے تو وہ پکڑے جاسکتے ہیں۔

پولیس نے اس اطلاع پر مذکورہ جگہ پر چھاپہ مارا جس پر بقول پولیس کے دہشت گردوں نے ان پر فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں نے پولیس پر ہیڈگرینڈ، راکٹ لانچر کے گولے چلائے اور ایل ایم جی کا بھی استعمال کیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی فائرنگ پر جوابی فائرنگ کی گئی اور کافی دیر جاری رہنے والے مقابلے کے بعد دو دہشت گرد کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ پانچ دہشت گرد جنگل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگ کر دریائے سندھ میں چھلانگیں لگاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

پولیس کے مطابق فرار ہونے والے نادر عبداللہ، شیر عباس، ضیاء اللہ ،عبدالحیْ، اور ابوعبیدہ شامل ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں سے جو اسحلہ برآمد ہوا ہے اس میں گیارہ ہینڈ گرینڈ، ایک راکٹ لانچر مشین ، آٹھ راکٹ گولے، آٹھ فیوز، دو ڈنگر رائفل ، ایک ایل ایم جی ، ایک کلاشنکوف اور ایک ہزار کے قریب کارتوس شامل ہیں۔

No comments: