Sunday, October 11, 2009

راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر جی ایچ کیو پر حملے میں چار حملہ آوروں سمیت گیارہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن میں فوج کے ایک بریگیڈیئر اور ایک لیفٹینٹ کرنل بھی شامل ہیں۔

پاکستان فوج کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے بریگیڈیئر کا نام انوار الحق اور لیفٹینٹ کرنل کا محمد وسیم ہے

پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق یہ واقعہ سنیچر کی صبح گیارہ بجے کے قریب اس وقت پی آیا جب ایک کیری ویگن میں فوج کی وردیوں میں ملبوس چھ مسلح افراد نے مری روڈ کے قریب واقع جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر ایک سے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

فوج وردی میں ملبوس ان حملہ آور نے پہلی حفاظتی چوکی پر روکے جانے کے بعد فائرنگ شروع کر کے چوکی میں موجود چار اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ حملہ آور گیٹ نمبر ایک کو عبور کرکے دوسری چوکی کی جانب بڑھے تاہم چوکی تک رسائی سے قبل ہی سکیورٹی گارڈز نے جوابی فائرنگ شروع کر دی۔

میجر جنرل اطہر عباس نے بتایا کہ اس جگہ چار حملہ آور ہلاک ہو گئے جب کے دو گیٹ کے اردگرد کے علاقے میں غائب ہو گئے۔ اس علاقے میں چند سرکاری اور رہائشی عمارتیں بھی ہیں۔

آخری خبریں آنے تک ان دو حملہ آوروں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا تھا اور ان کی تلاش کا کام جاری تھا۔

حکام کے مطابق دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ چالیس منٹ تک جاری رہا جس کے بعد صورتحال پر قابو پا لیا گیا۔ آپریشن کے دوران سکیورٹی اداروں کی مدد کے لیے ہیلی کاپٹروں کو بھی طلب کیا گیا۔

سرچ آپریشن

سرچ آپریشن میں فوج کے ہیلی کاپٹر بھی شریک ہیں

فوجی حکام کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران متعدد اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ نے ابتداء میں آٹھ فوجی اہلکاروں کی ہلاکت خبر دی تھی۔

راولپنڈی پولیس کے آر پی او اسلم ترین نے بتایا ہے کہ ہلاک شدگان میں ایک راہگیر بھی شامل ہے جو آپریشن کے دوران ہونے والی فائرنگ کا نشانہ بنا۔

فوجی ترجمان نے ان اطلاعات کی بھی تصدیق کی کہ تحریکِ طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

علاقے کو پولیس کمانڈور نےگھیرے میں لے لیا ہے

فائرنگ کے اس واقعہ کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا جبکہ آس پاس کی دکانیں اور کاروباری مراکز بند ہو گئے۔ راولپنڈی پولیس کے مطابق پولیس نے جی ایچ کیو کے اردگرد کے علاقے میں تلاشی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور دو مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

پاکستان میں سالِ رواں کے دوران دہشتگردوں نے متعدد اہم اداروں اور شخصیات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ مارچ کے مہینے میں دہشتگردوں نے پہلے لاہور میں سری لنکن کرکٹرز کی بس پر فائرنگ کر کے سات افراد کو ہلاک کیا اور پھر اسی ماہ مناواں میں پولیس تربیتی مرکز پر حملے کا واقعہ پیش آیا جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔

جی ایچ کیو سے تھوڑے ہی فاصلے میں موجود سر سید ہائی سکول کے ایک استاد نیئر خالد نےفون پر بتایا کہ فائرنگ کا اطلاع سے پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ انہوں نے کہا چھٹی کا وقت ہوجانے کے باوجود بچوں کو سکول چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ جن بچوں کے والدین گیٹ پر موجود تھے صرف ان بچوں کو سکول سے جانے دیا۔

No comments: